مضمون کو بھی توسمجھو کہ کون سی عشرت پر میں لعنت بھیج رہا ہوں؟ جو اﷲ کی نافرمانی کے راستے سے حاصل ہو۔بے وقوفی دراصل کسی گناہ کی سزا میں عقل پر خدا کا قہر ہے، عذابِ الٰہی ہے، اس بے وقوفی کا کوئی علاج نہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بے وقوف سے بھاگے جارہے تھے۔ ایک امتی نے کہا: حضور! آپ اس کی بے وقوفی دور کردیجیے، آپ کوڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہیں تو وہ اچھا ہوجاتا ہے، اندھے پر ہاتھ پھیرتے ہیں تو اس کو آنکھیں مل جاتی ہیں اور آپ سفید داغ والوں کو بھی اچھا کردیتے ہیں، لیکن یہ کیا بات ہے کہ آپ بے وقوف سے بھاگے جارہے ہیں؟ آپ اس پر بھی ہاتھ پھیردیجیے، اس کی بے وقوفی دور ہوجائے گی۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ بے وقوفی اﷲ تعالیٰ کا عذاب اور قہر ہے، خدا کا قہر جب ہی ہٹے گا جب یہ توبہ کرے گالہٰذا میں نے کہہ دیا کہ آج سے مجھے کوئی صاحب ایسا ٹیلی فون نہیں کریں گے، نہ ایسا خط لکھیں گے، میری اصلاح کے لیے میرا شیح کافی ہے، تم میری اصلاح کی فکر چھوڑدو، اگر آپ کو میری ڈاکٹری کام نہیں دے رہی ہے، تو میرا مستشفیٰ، میرا ہسپتال، میری خانقاہ چھوڑ کر دوسری خانقاہوں میں چلے جاؤ، ورنہ ایسے مریض کو کبھی شفانہیں ملے گی جو ڈاکٹروں کی اصلاح کرنے لگے۔
شیخ پر اعتراض کرنا محرومی کی علامت ہے
ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لِلْمُرِیْدِ بِاَنْ لَایَنْظُرَ اِلَی الشَّیْخِ بِعَیْنِ الْاِحْتِقَارِ، لِاَنَّ مَنِ اعْتَرَضَ عَلٰی شَیْخِہٖ لَمْ یُفْلِحْ اَبَدًا4 ؎
جس نے دینی مربّی پر اعتراض کیا اور اس کو حقیرسمجھا اس کو کبھی فلاح نہیں مل سکتی۔ حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کو اپنے دینی مربی سے جتنا نیک گمان، جتنا ادب، جتنااکرام ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ راستہ اﷲ والوں کا ہے، یہ روحانی راستہ ہےیہ جو عام لیڈر قسم کے مقررین پھر رہے ہیں اور چند تقاریر کرکے بزرگ بن بیٹھے ہیں مگر کسی بزرگ سے اصلاح نہیں کرائی، اس قسم کے لوگوں کو بزرگوں کی ہر بات پر اعتراض ہوتا ہے۔ ان کی گھٹی میں شروع ہی سے بدتمیزی پلائی جاتی ہے، اعتراض کرنا ا ن کا عین دین
_____________________________________________
4؎ مرقاۃ المفاتیح:220/1،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، المکتبۃ الامدادیۃ ، ملتان