ہے۔ آپ بتائیے! حسن کی ویرانیاں اور تباہ کاریاں پیش کرنا تاکہ نوجوانوں کا ایمان بچ جائے اورفلمی دنیا میں جو عورتیں ننگی پھر رہی ہیں ان کے فتنے سے ہمارے نوجوانوں کی زندگی بچ جائے، یہ عورت کی بے حرمتی ہے یا اس کی حرمت اور عزت ہے کہ اس کے حسن کی فنائیت دکھا کر اس کو ابوالہوس، لالچی، بدکار اور فاسق لوگوں سے بچایا جائے؟یہ دوسری بات ہے کہ کوئی ایسی آوارہ ہو جس کو خطرہ ہو کہ ایسی باتیں سن کر کہیں میرے آشنا کی نظر میں میرے حسن کی قیمت نہ گھٹ جائے تو ایسی نالائق عورتیں ہماری مخاطَب نہیں۔
مجھے ایسی روحوں کی ضرورت نہیں ہے جن کو میری تقریر سے پریشانی ہوتی ہو۔ میں پھر اعلان کرتا ہوں کہ اگر کسی کو میری تقریروں سے فائدہ نہیں ہوتا، تو سمجھ لو کہ اس کو مجھ سے مناسبت نہیں ہے، لہٰذا میری تقریر کی اصلاح کرنے کی کوشش نہ کیجیے، نہ مرد نہ عورت۔ جو مریض یا مریضہ ڈاکٹر کی اصلاح کرے، ڈاکٹر پر فرض ہے کہ اس کو ہسپتال سے گیٹ آؤٹ کردے۔ آپ بتائیے! آلو بیچنے والایا سبزی بیچنے والا کسی ڈاکٹر کو یہ مشورہ دے سکتے ہیں کہ آپ کا کیپسول ڈھائی ہزار ملی گرام کا کیوں ہے؟ اس سے کم میں بھی کا م چل سکتاہے۔ اسی طرح کسی روحانی مریض کوبھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے روحانی معالج کو یہ مشورہ دے کہ صاحب یہاں یہ مضمون کیوں زیادہ بیان ہوتاہے؟ میں بیس سال سے یہ کام کررہا ہوں اور لوگ میرا اتنا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آہ! آپ کی تقریرسننے سے قبل ہم بہت ہی خطرناک اور بہت ہی بھیانک زندگی میں تھے،اِن تقریروں کی برکت سے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں عشقِ مجازی اور عورتوں کے چکر سے نجات بخشی۔
وہ نیک بیویاں جو پردے دار ہیں، اللہ والی ہیں، اِن تقریروں سے وہ ہماری مراد نہیں ہوتیں، ہم تو ان کی دعائیں لیتے ہیں۔ ایسی خواتین کے جب ٹیلی فون آتے ہیں، تو میں ان سے کہتاہوں کہ میری صحت کے لیے دعا کیجیے گا۔ کوئی خاتون کہتی ہے کہ ہم عمرہ پر جارہے ہیں ہمارے لیے دعا کیجیے تو ہم بھی ان سے دعا کا کہتے ہیں، ایسی خواتین کو ہم اﷲوالی سمجھتے ہیں۔ میں تو خود ان کی تعریف کرتا ہوں، لیکن جن کی بُرائیاں بیان کرتا ہوں، اس سے وہ خبیث عورتیں مراد ہیں جو بازاروں میں بے پردہ ننگی پھرتی ہیں۔ کچھ تو عقل استعمال کریں۔ انسان کو اتنا پاگل اور احمق بھی نہیں ہونا چاہیے، میری مراد کو سمجھو، میں خواتین کی بے حرمتی نہیں کرتا، میں