ہوگئی۔ جیسا کہ ابھی میر صاحب نےآپ کو پڑھ کر سنایا کہ اگر گھوڑا بھوکا ہے اور نیچے بیس فٹ کا کھڈا ہے جہاں ہری ہری گھاس ہے اور وہ گھوڑا گھاس کو دیکھ کر للچارہا ہے اور ارادہ کررہا ہے کھڈے میں کودنے کا تو سوار کو پتا چل جاتا ہے کہ اب یہ ہری گھاس کی لالچ میں خندق میں کودنا چاہتا ہے لیکن سوار جانتا ہے کہ اگر یہ کودا تو نہ یہ رہے گا نہ میں رہوں گا لہٰذا زور سے اُس کی لگام کھینچتا ہے، چاہے گھوڑے کا منہ زخمی ہوجائے تو بھی پروا نہیں کرتا۔ اسی طرح ہر انسان کو اپنے نفس کے گھوڑے کے بارے میں پتا چل جاتا ہے کہ اب یہ گناہوں کی ہری ہری گھاس دیکھ کر للچارہا ہے اور اب یہ بے غیرتی کا مظاہرہ کرنے والا ہے، آنکھ کھولنے والا ہے، شلوار کھولنے والا ہے اور جانتا ہے کہ گناہوں کی خندق میں کود کر یہ بھی تباہ ہوگا اور میں بھی تباہ ہوں گا تو اس سے بڑا احمق اور گدھا کون ہوگا کہ گھوڑا بھی ضایع ہو اور سوار بھی ضایع ہو اور پھر بھی نفس کی لگام نہ کھینچے۔ آخر عقل کے بالغ ہونے کی ایک مدت ہوتی ہے، ہر کورس کی ایک مدت ہوتی ہے، حیا اور شرم کا بھی کورس ہے،آخر کب تک بے شرمی رہے گی۔ دوستو! کوئی زمانہ تو آنا چاہیے کہ جس میں انسان کے قلب میں تقویٰ اور حیا پیدا ہوجائے۔ حیا کے معنیٰ یہ نہیں کہ گھر سے باہر بغیر شیروانی کے نہ نکلے جب تک سب بٹن نہ لگالے۔ یہ اہل لکھنؤ کی شرم ہے، اللہ والوں کی شرم یہ نہیں ہے۔ اللہ والوں کی شرم یہ ہے کہ اُن کا مولیٰ اُن کو نافرمانی کی بے حیائی میں نہ دیکھے ورنہ لباس سے کیا ہوتا ہے۔
لباسِ تقویٰ کی بدولت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جلالتِ شان
مدینہ شریف کے قبرستان میں جنت البقیع میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خالی لنگی باندھے ہوئے زمین پر لیٹے تھے اور قیصر روم کا عیسائی سفیر پوچھنے لگا کہ مسلمانوں کا جو امیرالمؤمنین اور خلیفہ ہے وہ کہاں رہتا ہے، اُس کا محل کدھر ہے؟
قوم گفتندش عمر را قصر نیست
مسلمانوں کی قوم نے کہا کہ خلیفۂ دوم حضرت امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی محل نہیں؎