یہ مولانا رومی ہیں۔یہ شخص کوئی قصے کہانی کی کتاب لکھنے والا نہیں ہے۔سارے عالَم کے اولیاء اللہ جس کی ولایت کو تسلیم کرتے ہیں یہ اُس کا کلام ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ کا یہ طبقہ جو ابدال کہلاتا ہے اُن کی روحانیت کے پر ظاہر میں نظر نہیں آتے،مثل جبرئیل علیہ السلام کے اُن کی روح میں پر ہوتے ہیں لیکن اُن کو بتانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ایک گاؤں میں ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ میں ابدال ہوگیا ہوں۔حضرت حکیم الاُمت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھا گیا کہ یہاں ہمارے گاؤں میں ایک شخص اپنی ابدالیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ جس کو اللہ ابدال بناتا ہے اُس کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے کو ابدال ظاہر کرے لہٰذا یہ ابدال نہیں ہے، ہاں پہلے گوشت تھا اب دال ہوگیا ہے۔ یعنی تکبر سے دعویٰ کرکے اپنی بڑائی دکھاتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔
بڑے پیر صاحب کا واقعۂ طَیُّ الْاَرْضْ
بڑے پیر صاحب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سلسلۂقادریہ کے بانی، اُن کو بارہ بجے رات کو حکم ہوا کہ دو سو میل پر شہر بصرہ میں جائیے، وہاں ایک ابدال کا انتقال ہوگیا ہے۔ اُس کے جنازے میں آپ کو شرکت کرنی ہے۔ چناں چہ دو تین سو میل ایک سیکنڈ میں پہنچ گئے۔ اولیاء اللہ کے لیے زمین لپیٹ دی جاتی ہے، اس کا نام طَیُّ الْاَرْضْ ہے۔ ایک خادم بھی وہاں چھپا ہوا تھا، وہ ظالم بھی بصرہ پہنچ گیا، جب زمین لپیٹی گئی تو اس لپیٹ میں وہ بھی سمٹ گیا۔ شیخ سے اجازت لی نہیں تھی، اس لیے مارے ڈر کے وہ اپنے کو ظاہر نہیں کرتا تھا، دور دور سے دیکھتا رہا۔ اُسی نے یہ راز فاش کیا کہ جب اس ابدال کے جنازے کی نماز ادا ہوگئی تب اللہ تعالیٰ کی طرف سےحکم ہوا کہ اب موصل جائیے،وہاں ایک عیسائی ہے جو اپنے عیسائی مذہب پر گرجا گھر میں عبادت میں مشغول ہے لیکن میں نے اُس کے قلب میں ایمان داخل کردیا ہے، اُس کو کلمہ پڑھائیے اور اس ابدال کی کرسی پر اُس کو بیٹھا دیجیے ؎
جوش میں آئے جو دریا رحم کا
گبر صد سالہ ہو فخرِ اولیاء