مر عمر را قصر جانِ روشنے است
مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا محل اُن کی جانِ پاک ہے جو تعلق مع اللہ کے نور سے روشن ہے اور بہت شاندار ہے۔ صحابہ نے بتایا کہ وہ جنت البقیع کے قبرستان میں کہیں گھاس پر لیٹے ہوئے ملیں گے۔ جاکر دیکھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زمین پر خالی لنگی پہنے ہوئے سو رہے ہیں، وہ سفیر ہیبت سے کانپنے لگا اور دل میں کہنے لگا؎
گفت باخود من شہاں را دیدہ ام
پیش سلطاناں پنہ بگذیدہ ام
میں تو ہمیشہ بادشاہوں کو دیکھتا رہا ہوں اور میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کے ہاں حاضری دی ہے لیکن ؎
از شہانم ہیبت و ترسم نبود
ہیبت ایں مرد ہوشم را ربود
بادشاہوں سے مجھے کبھی ایسا خوف نہ ہوا لیکن اس گدڑی پوش کی ہیبت سے تو میرے ہوش اُڑے جارہے ہیں ؎
بے سلاح ایں مرد خفتہ بر زمیں
من بہفت اندام لرزم چیست ایں
یہ کیسا بادشاہ ہے کہ لنگی باندھے ہوئے سو رہا ہے نہ کوئی سیکورٹی نہ کوئی گارڈ، نہ کوئی محافظ دستہ، نہ ہتھیار، اکیلا لیٹا ہوا ہے لیکن کیا ماجرا ہے کہ میں سات جسموں سے کانپ رہا ہوں۔ میں نے بڑے بڑے مسلح بادشاہوں کو فوج کے ساتھ دیکھا ہے کیوں کہ سفیروں کا کام ہی سلاطین عالم سے ملنا ہے لیکن میں وہاں کبھی نہیں کانپا مگر عادت کے خلاف یہاں کیوں کانپ رہا ہوں اور ایسا کانپ رہا ہوں کہ اگر مجھے سات جسم اور مل جائیں تو سب کانپنے لگیں۔ یہ کیا ماجرا ہے؟ مولانا رومی نے جواب دیا؎
ہیبتِ حق است ایں از خلق نیست
ہیبتِ ایں مرد صاحب دلق نیست