خالق زندگی کو پالینا اپنی زندگی کو حاصلِ زندگی سے آشنا کرنا ہے۔ جو اللہ کو پاگیا زندگی کا حاصل پاگیا۔ جس دن بندہ نفس و شیطان کی غلامی سے نکل کر سراپا اللہ کا ہوگیا اور اللہ کا ہونا اس کی قسمت میں مقدر ہوگیا اور استقامت کی نعمت سے مشرف ہوگیا تو لاکھ قنات ہٹاکر عورتیں کہیں کہ پیر نوں چنگی طرح ویکھن دیو۔ پنجاب میں جاہل عورتیں کہتی ہیں کہ پیر سے کیا پردہ، پیر کو ہمیں اچھی طرح دیکھنے دو۔ لیکن اگر اللہ والا عالم ہے تو وہ کہے گا کہ بس میری تقریر بھی ختم، ہم جاتے ہیں،اگر آپ کو پردہ منظورنہیں ہےتو میری تقریربھی یہاں نہیں ہوسکتی۔ اللہ کو ناراض کرکے دین پھیلانا ہم پر فرض نہیں ہے۔ ہمیں سرکاری کام سرکار کی مرضی کے مطابق کرنا ہے۔ خلافِ اصول مدرسہ چلانا ہم پر فرض نہیں ہے، مدرسہ ہو یا تقریر ہو یا جلسہ ہو ہم سرکاری کام کو سرکار کی مرضی کے مطابق کریں گے۔ یہ تھوڑی ہے کہ عورتیں کہیں کہ ویکھن دیو اور ہم کہیں کہ ہاں ہاں دیکھ لو۔ نہ تمہارا ویکھن چلے گا نہ ہمارا ویکھن چلے گا اللہ کا حکم چلے گا۔
شانِ اہل اللہ کے منافی اعمال سے پرہیز کی تعلیم
دوستو! اعمالِ بد سے اپنی قسمت کو خراب مت کرو، کچھ انسانیت کا حق ادا کرو، ذرا اپنی صورت کو دیکھو۔ اسی لیے میں نے کہا ہے کہ جیب میں آئینہ رکھو اور جب کسی خبیث حرکت کو دل چاہے تو آئینہ نکال کر اپنی شکل دیکھو،اپنے سر کی گول ٹوپی دیکھو، اپنی داڑھی کی پیمایش کرو اور اپنی پیشانی پر سجدوں کے نشانات دیکھو، پھر اس کے بعد فیصلہ کرو کہ یہ جغرافیہ ہمارا ہے،اس جغرافیے کے ساتھ یہ سیاہ تاریخ ہمیں زیب دیتی ہے یا نہیں۔ ہر چیز کا ایک تناسب ہوتا ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد فرمودہ قصہ ہے کہ ایک اونٹ جارہا تھا۔ ایک چوہے نے اُس کی رسی پکڑلی اور آگے آگے چلنے لگا۔ اونٹ نے دیکھا کہ ایک چوہا میری امامت کے فرائض انجام دینے کی کوششِ ناکام میں لگا ہوا ہے۔ اُس اونٹ نے سوچا کہ تھوڑی دیر کے لیےاس کا دل بھی خوش کردوں تاکہ یہ ناز کرے کہ میں ایک چھوٹا سا جسم ہوں اور اتنے بڑے جسم کا امام بنا ہوا ہوں۔ اونٹ پیچھے پیچھے چلنے لگا اور اپنے دانت میں چوہا رسّی کو دبائے آگے آگے چلنے لگا اور مارے خوشی کے اپنے سائز سے کئی گنا زیادہ پھول گیا۔ اونٹ اس کے پھولنے پر ہنس رہا تھا کہ ابھی پتا چلے گا۔ آگے دریا آرہا ہے تب ان کو اپنی مشیخت اور