دینے کی قدرت بوجۂ رحمت و کرم اس سے بھی زیادہ ہے، آپ کی رحمت آپ کے غضب سے زیادہ ہے۔ یہ ادائے الوہیت بزبانِ نبوت اختر پیش کررہا ہے، یہ ادائے خواجگی عبدِ کامل کی زبان سے اختر پیش کررہا ہے جس سے بڑا کوئی کامل بندہ نہیں ہے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رحمت اور غضب کی صفت میں دوڑ ہوئی، مسابقہ ہوا تو حدیثِ قدسی ہے کہ سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِیْ6؎ اللہ کی صفتِ رحمت صفتِ غضب سے آگے بڑھ گئی جس سے بندوں کا بیڑا پار ہوگیا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھائی: وَلَاتُعَذِّبْنِیْ اور ہمیں آپ عذاب نہ دیجیے، فَاِنَّکَ عَلَیَّ قَادِرٌ کیوں کہ آپ کو تو ہم پر پوری قدرت ہے، ہم تو آپ کے تحت القدرۃ ہیں، جو چاہیں آپ ہمیں کردیں، کُتّا بنادیں، سور بنادیں، زمین پھاڑ کر دھنسادیں، عذاب کی جتنی قسمیں ساری اُمتوں پر آئی ہیں آپ سب کی سب اجتماعی طور پر اس گناہ گار پر نازل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن آپ ہم کو عذاب دینے کی تمام قدرتوں میں سے ایک قدرت کا بھی ظہور نہ کیجیے۔ عذاب دینے کی جتنی قدرت آپ کو حاصل ہے، اس میں سے ایک ذرّہ بھی نافذ نہ کیجیے بلکہ عذاب نہ دینے والی قدرت میں ایک ذرّہ نہ چھوڑیے۔ آہ! سوچو تو سہی کیا یہ حق تعالیٰ کا کرم اور علم عظیم نہیں ہے کہ عذاب دینے کی جو قدرت آپ کو ہے اس میں سے ایک ذرّہ، ایک اعشاریہ ظاہر نہ ہونے دیجیے اور عذاب نہ دینے کی جو آپ کو قدرت ہے وہ سب کی سب ہم پر ڈال دیجیے۔ کیا مطلب؟ کہ غضب کا سارا ظہور ختم اور ساری رحمت ہم پر تمام کردیجیے، بحر رحمتِ ذخارِ غیرمحدود کو ہم پر اُنڈیل دیجیے، دریا کا دریا انڈیل دیجیے، اپنی رحمت کی بارش فرمادیجیے کہ آپ کی رحمت کا تماشا دیکھ کر ساری دنیا حیرت زدہ ہوجائے کہ ارے! اس کو تو ہم معمولی سمجھتے تھے، یہ کیا سے کیا ہوا جارہا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی تاریخِ ذلت کو بدلتا ہے اور عزت کی تاریخ دیتا ہے تو سارے مؤرّخینِ عالم اور مؤرخین کائنات انگشت بدنداں، حواس باختہ اور حیران و ششدر رہ جاتے ہیں۔ بس اب لغت ختم، دنیائے لغت سرنگوں ہے۔ اللہ اللہ ہے، ہماری کوئی لغت ان کے کمالات کی تعبیر و تفسیر کرنے سے قاصر ہے۔ اب دنیائے لغت سرنگوں و عاجز ہے، اس لیے بس ؎
گفتن امکاں نیست خامش والسلام
_____________________________________________
6؎ صحیح البخاری:1127/2 ،باب قولہ بل ہو قرآن مجید، المکتبۃ المظہریۃ