اور و جہ کیا ہے؟ آسانی سے اللہ کیوں نہیں ملتا؟ خونِ آرزو ئے حرام کے دریاؤں اور سمندروں سے کیوں گزارتے ہیں؟ اس کا جواب مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے دیاہے ؎
عشق از اوّل چرا خونی بود
اللہ تعالیٰ اپنے عشق کے دریائے خون سے عبور کرا کے ملتا ہے، عشق کا منظر شروع میں بڑا خونی نظر آتا ہے؎
تا گریزد ہر کہ بیرونی بود
تاکہ جو بیرونی یعنی غیر مخلص لوگ ہیں وہ ہمارے مخلصین کے دائرے میں کہیں داخل نہ ہوجائیں۔ ہر بادشاہ اپنے محل کے آگے خار دار تاروں کی باڑھ لگوادیتا ہے تاکہ درباری لوگوں میں غیر درباری نہ داخل ہوجائیں، تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے محلِ قرب کے آگے دریائے خون رکھا ہے، جو خونِ آرزو عبور کرکے آئے گا اس کو اللہ تعالیٰ ملے گا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے عشق کو خونی دکھایا ہے؎
عشق از اوّل چرا خونی بود
تا گریزد ہر کہ بیرونی بود
تاکہ بیرونی اور غیر درباری لوگ دربار میں نہ آجائیں۔ اور تجلیاتِ الٰہی کاحامل ہونے کی صلاحیت قلب میں تقویٰ کے غم سے اور خونِ آرزو سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ کے راستے میں جتنا قوی جس کا مجاہدہ ہوگا، جتنا قوی غم اُٹھائے گا کہ ہر سانس بھی اللہ پر فدا کرتا ہے اور ایک سانس بھی اللہ کو ناراض کرکے حرام لذتوں اور گناہوں سے اپنے قلب کو غیرمتجلی نہیں ہونے دیتا ، ایک لمحہ بھی اللہ کی جدائی کو برداشت نہیں کرتا ،اس لیے وہ گناہ سے بچتا ہے،جبکہ اسی دنیا میں کوئی شراب پی رہا ہے، کوئی زنا کررہا ہے ، کوئی عورتوں کو دیکھ رہا ہے، تو سوچئے! کہ جو اتنا زیادہ غم اٹھائے گا تو کیا اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین نہیں ہیں؟ کیا ایسے قلب کا وہ پیار نہیں لیں گے؟ اللہ تعالیٰ اپنے عاشقین کو دیکھ رہے ہیں کہ میرے بندے کتنا غم اٹھار ہے ہیں کہ کسی کو نہیں دیکھتےیہاں تک کہ لیلائیں بھی دیکھتی ہیں کہ یہ عجیب ملّا ہیں جو ہمیں دیکھتے نہیں ہیں ، جبکہ دوسرے لوگ دیکھ کر پاگل ہورہے ہیں، تو اللہ تعالیٰ بھی ان کو اپنے پیار کی ایسی غیر فانی لذت عطا فرماتے ہیں جس کے مزے کو وہی جانتا ہے جس کو عطا ہوتی ہے۔