کو مذکور تک پہنچادیتا ہے بلکہ مذکور کو اپنے دل میں پاجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نام ایسا ہے کہ جو اُن کا نام لیتا ہے بشرطِ تقویٰ اور بشرطِ پرہیز، تو وہ خالی اسم نہیں رٹتا مسمیٰ بھی پاجاتا ہے۔
آج میں اللہ تعالیٰ کے نام کی تفسیر اس آیت سے کررہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے نام سے قلب کو چین کیوں ملتا ہے؟ کیوں کہ بے چینی دو و جہ سے ہوتی ہے: ایک تو یہ کہ نعمت کی تمنا تھی لیکن استعمال نہیں کرسکا ،کیوں کہ موجود نہیں اور دوسری و جہ یہ ہے کہ موجود ہے لیکن استعمال کی قدرت نہیں،مثلاً لذیذ غذائیں موجود ہیں مگر معدے میں گنجایش نہیں ہے۔ دنیا کی ساری نعمتیں ، دنیا کی لیلاؤں کے نمکیات اوردنیا بھر کے سیب اس کے پاس ہیں، مگر کیا کوئی شخص تمام نعمتوں کو بیک وقت استعمال کرسکتا ہے؟
ہفتِ اقلیم کی سلطنت بھی کسی کو مل جائے، ہفت برّاعظم کا بادشاہ ہوجائے، لیکن پھر بھی اس کے قلب کو چین نہیں ہے، کیوں کہ دنیا میں ایسے احوال آجاتے ہیں کہ جو اس کے قابو سے باہر ہوتے ہیں، مثلاً بعض برّاعظم ایسے ہیں جیسے سمندر، جن پر اُس کی حکومت نہیں چل سکتی،یا جہاں حکومت ہے تو وہاں اپوزیشن کا بھی خطرہ ہوتا ہے اور خوفِ زوالِ سلطنت ہوتا ہے،لیکن کسی اللہ والے کو اپنے قلب کی سلطنت کے زوال کااندیشہ نہیں ہوتا، کیوں کہ سلطان السلاطین ان کے دل میں ہوتا ہے، ان کی سلطنت ان کے دل میں ہے اور یہ ایسی سلطنت ہے جس کو کوئی اُن سے چھین نہیں سکتا۔
نعمائے جنت سے بڑھ کر مزہ پانے والے لوگ
اس لیےدونوں جہاں سے بڑھ کر مزہ وہ اپنے دل میں پاتے ہیں، اس پر میرا شعر ہے؎
وہ شاہِ دو جہاں جس دل میں آئے
مزے دونوں جہاں سے بڑھ کے پائے
کیوں کہ دونوں جہاں اللہ تعالیٰ کے پیدا کیےہوئے ہیں۔ دنیا بھی،آخرت بھی، جنت بھی اور دوزخ بھی ۔ تویہ بتاؤ کہ جنت مخلوق ہے یا نہیں؟ اور پوری دنیا مخلوق ہے یا نہیں؟ تو خالق افضل ہے یا مخلوق؟ تو جب خالق دل میں آئے گا تو پورے عالَم سے بے نیازی اور استغناپیدا ہوجائے گا۔ ضرورتاً کھائے گا لیکن کسی نعمت کو دیکھ کر للچائے گا نہیں، صرف جینے کے لیے کھائے گا، کیوں