دنیا میں بھی آپ دیکھتے ہیں کہ جتنا بڑا آدمی ہوتا ہے اتنا ہی بڑا گھر بناتا ہے،اپنی عظمتوں کے حساب سے اپنے گھر میں مٹیریل لگاتا ہے۔ تو جس اللہ نے ہمارے قلب کو اپنی جلوہ گاہ بنایا ہے اسی اللہ نے قلب کی ایسی ساخت بنائی ہے، قلب کو ایسا مٹیریل دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مع تجلیات کے اس قلب میں متجلی ہوجاتا ہے اور دل اس کو برداشت کرلیتا ہے۔ پس جس قلب میں خالقِ جنت متجلی ہو وہ دنیا ہی میں جنت سے بڑھ کر مزہ نہ پائے گا؟ بجز لذت ِ دیدار کے جنت سے بڑھ کر مزہ وہ دنیا ہی میں پاجاتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کو حاصل کرلو اللہ والوں کی صحبت سے ، اہتمامِ تقویٰ سے، ذِکرا للہ کے دوام سے، اپنی حرام آرزو کا دریائے خون بہادو، ڈرو مت، اسی دریائے خون کے بعد اللہ ملے گا۔ دریائے خون سے جوعبور نہیں کرے گا، مُرور نہیں کرےگا ،اس کو قربِ الٰہی کا سرور بھی نہیں ملے گا۔ میرے اشعار ہیں؎
سنو داستانِ مضطر ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کر
یہ لہو لہاں کا منظر مرا سر ہے زیرِ خنجر
مرے خوں کا بحر احمرذرا دیکھنا سنبھل کر
یہ تڑپ تڑپ کے جینا لہو آرزو کا پینا
یہی میرا جام و مینا یہی میرا طورِ سینا
مِری وادیوں کا منظر ذرا دیکھنا سنبھل کر
مر ا غم زدہ جگر ہے مری چشم چشم تر ہے
مِرا بحرخوں سے تر ہے مرا بَر لہو سے تر ہے
مِرے بحر و بر کا منظر ذرا دیکھنا سنبھل کر
مِری فکر لامکاں ہے مِرا درد جاوداں ہے
مِرا قصہ دلستاں ہے مِری رَگ سے خوں رواں ہے
مرے خون کا سمندر ذرا دیکھنا سنبھل کر