ہر چہ گویم را شرح و بیاں
ہر چند میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق کی شرح بیان کرتا ہوں لیکن؎
چوں بہ عشق آیم خجل باشم ازاں
جب دو بارہ عشق مجھ پر طاری ہوتا ہے اور میں زبانِ محبت کو پیش کرتا ہوں، تو اس بیان میں مجھے اتنا مزہ آتا ہے کہ پچھلے بیان سے میں شرمندہ ہوجاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا کہ جب میرے عاشق مجھے یاد کرتے ہیں، تو میرے نام میں یہ خاصیت ہے کہ ان کے دل کو چین اور اطمینان ملتا ہے اور اطمینان کی دو وجہ میں نے بیان کی:ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والوں کے دل میں کوئی حسرت نہیں ہوتی، نہ دنیا کی، نہ جنت کی، دونوں جہاں یہیں پاجاتے ہیں۔
بلاتقسیم دونوں جہاں کا مزہ پانے والے
اور دوسری و جہ زندگی میں پہلی بار اس آیت کے ذیل میں بیان کررہا ہوں کہ بادشاہوں کو تقسیمِ مملکت سے مملکت ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کو دونوں جہاں کا مزہ بلا تقسیم ملتا ہے، بلا تقسیم پورے عالَم کی سلطنت کا مزہ ملتا ہے، کیوں کہ وہ خالقِ ارض وسماء ہے، خالقِ شمس وقمر ہے،خالقِ بحروبر ہے ، خالقِ شجروحجر ہے ،وہ سارے عالم کا خالق ہے، جب وہ دل میں آتا ہے تو ہر ولی اللہ خود ایک عالَم بن جاتا ہے، کیوں کہ دل میں خالقِ عالَم کو لیے بیٹھا ہے، اس کا قلب خود ایک عالَم ہوتا ہے، ہرولی ایک عالَم رکھتا ہے، اس کے زمین وآسمان ، اس کے سورج اور چاند اس کے دل میں ہوتے ہیں، تو اطمینان کی و جہ یہ ہے کہ وہ تمناؤں سے ، حسرتوں سے خالی ہو جاتا ہے اور یہ شعر بزبانِ حال پڑھتا ہے؎
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
یہ خواجہ مجذوب صاحب رحمہ اللہ کا شعر ہے۔ حکیم الامت رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ شعر سن کر فرمایا تھا کہ خواجہ صاحب !اگر میرے پاس ایک لاکھ روپیہ ہوتا تو آپ کواس شعر پر انعام میں