Deobandi Books

لذت قرب خدا

ہم نوٹ :

24 - 34
خالقِ جنت سے تعلق رکھنے والوں کے بے مثل مزے
تو ہر ولی اللہ اپنے قلب میں پورا عالم رکھتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ کے نام سے اس کے دل میں ہروقت چین رہتا ہے، کیوں کہ نہ کوئی حسرت ہے نہ تمنا ہے، مالک کے قرب کی وجہ سے ہر وقت مست رہتا ہے، شانِ صمدیت کا اُس پر ظہور ہوتا ہے۔ اللہ کی ذات کیا ہے؟
اَلْمُسْتَغْنِیْ عَنْ کُلِّ اَحَدٍ وَّالْمُحْتَاجُ اِلَیْہِ کُلُّ اَحَدٍاللہ سارے عالم سےمستغنی ہے اور سارا عالم اُس کا محتاج ہے۔
اِس صمدیت کا ظہور جب اُس کے قلب پر ہوتا ہے تو جتنا بندہ اس کا مستحق ہے اور جتنا اس کا تحمل ہے، اس کے مطابق اپنی صمدیت کے خزانے سے اللہ تعالیٰ کچھ دےدیتے ہیں کہ خالقِ عالَم کے ذِکر میں وہ بے نیازِ عالَم ہوتا ہے، مگر بیوی بچوں کا حق ادا کرتا ہے۔ یہ بے نیازی نہیں ہے کہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگل چلا جاتا ہے۔ اب رہ گئی جنت تو خالقِ جنت جب دل میں آئے گا تو بتاؤ! جنت افضل ہے یا خالقِ جنت افضل ہے؟ لہٰذا جو دل میں اللہ تعالیٰ کو پاجائے گا تو دنیا میں اس کو جنت سے زیادہ مزہ حاصل ہو جائے گا۔ بس ایک مزہ باقی رہے گا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار یہاں نہیں ہو گا، وہ تو جنت جا کر ہی نصیب ہوگا۔
میرے مرشد فرماتے تھے کہ جب آنکھیں بنائی جاتی ہیں تو آنکھوں پر پٹی بندھی رہتی ہے، جب روشنی آجاتی ہے تب ڈاکٹر کہتا ہے کہ اب پٹی کھول دو۔ تو ایمان وتقویٰ سے یہاں ہماری آنکھیں بنائی جارہی ہیں دیدارِ الٰہی کے لیے، جب روح ایمان کے ساتھ نکل جائے گی تو اللہ تعالیٰ جنت میں فرمائیں گے اب پٹی کھول دی گئی، اب کَاَنَّکَنہیں،یہا ںاَنَّکَ تَرَاہُ ہے۔ دنیا میں کَأَنَّکَ تَرَاہُ  تھا یعنی اس احساسی کیفیت سے عبادت کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ یہ بخاری شریف کی حدیث ہے، لیکن جنت میں گویا نہیں رہے گا، گو مگو سب ختم، وہاں  اَنَّکَ تَرَاہُہے، تم یقیناً مجھے دیکھو گے۔
_____________________________________________
5؎     روح المعانی:274/30 ،الاخلاص(2) ، داراحیاءالتراث، بیروت
Flag Counter