Deobandi Books

لذت قرب خدا

ہم نوٹ :

19 - 34
کہ قیامِ اسٹرکچر اور ڈسٹمپر اسی سے ہے، روٹی نہ ملے تو چہرہ بھی سوکھ جاتا ہے اور اسٹرکچر بھی کانپنے لگتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے نام سے اس کے قلب میں سیر چشمی ہوگی۔ عاشقِ ذاتِ حق کے لیے جنت بھی درجۂ ثانوی میں ہوتی ہے، اللہ کے نام میں وہ جنت سے بڑھ کرمزہ پاتا ہے۔ پس دیدارِ الٰہی کے علاوہ سب کچھ اس کے دل میں ہوتا ہے، جب دردِ دل سے اللہ کہتا ہے تو اپنے قلب میں دونوں عالم کاحاصل بِجَمِیْعِ کَمِیَّاتِہٖ وَکَیْفِیَّاتِہٖ وَلَذَّا تِہٖ  پاتا ہے۔ اللہ کا نام حاصلِ دو جہاں ہے؎
لذتِ دوجہاں ملی مجھ کو تمہارے نام سے
مجھ کو تمہارے نام سے لذتِ دو جہاں ملی
لیکن اس شعر میں ایک کمی رہ گئی تھی جو میں نے دوسرے شعر میں دُور کی کہ؎
وہ  شاہِ  دو  جہاں  جس دل میں  آئے
مزے دونوں جہاں سے بڑھ کے پائے
دونوں جہاں جس کی برابری کرسکیں وہ اللہ نہیں ہو سکتا ۔ مخلوق اور خالق کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟اللہ تعالیٰ کاکوئی مثل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں جہاں کے خالق ہیں، خالقِ جنت ہیں، جس نے اللہ کو دنیا میں پالیا وہ حاصلِ جنت پاگیا، گو جنت وہ بعد میں دیکھے گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں جنت دیکھوں گا تو میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا کیوں کہ اتنا یقین مجھ کو دنیا ہی میں حاصل ہےببرکتِ صحبتِ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم۔ خالقِ جنت جس کے دل میں ہے تو بتاؤ! جب جنت سے افضل چیز موجود ہے تو جنت سے زیادہ مزہ اس کو دنیا ہی میں نہ آنے لگے گا؟ جب اللہ تعالیٰ دل میں ہے تو سارے عالم کے بادشاہوں کے نشے، سارے عالم کی سلطنت کے نشے ، وزارتِ عظمیٰ کی کرسیوں کے نشے، سارے عالم کے انگوروں کے نشے،سارے عالم کے سیبوں کے نشے، سارے عالم کا رس اللہ اس دل میں گھول دیتا ہے جس دل میں وہ اللہ آتا ہے۔ واللہ ! میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس حقیقت کی تعبیر کے لیے میرے پاس لغت نہیں ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات غیر محدود ہے، ہماری لغت محدود ہے۔ غیر محدود ذات کو دل محسوس تو کرسکتا ہے مگر لغت سے تعبیر نہیں کرسکتا۔ مولاناجلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؎
Flag Counter