Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

233 - 607
اور جو چیز تم اس غرض سے دو گے کہ سود بن کر لوگوں کے مال میں بڑھوتری کا سبب بنے، یہ توا للہ کے نزدیک نہیں بڑھتا۔ اور جو کچھ زکوٰۃ (وغیرہ) دو گے جس سے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو تو ایسے لوگ اپنے 
دیے ہوئے مال کو اللہ تعالیٰ کے پاس بڑھاتے رہتے ہیں۔
فائدہ: مجاہد ؒکہتے ہیں کہ بڑھوتری کی غرض سے مال دینے میں وہ سب مال داخل ہیں جو اس نیت سے دیے جائیں کہ اس سے افضل ملے۔ یعنی چاہے دنیا میں اس سے افضل ملنے کی زیادہ ملنے کی امید پر خرچ کرے، یا آخرت میں زیادہ ملنے کی امید پر خرچ کرے وہ سب بڑھوتری کی امید میں داخل ہے۔ اسی لیے ربا اورزکوٰۃ کو ساتھ ذکر کیا۔ ایک اور حدیث میں حضرت مجاہد ؒسے نقل کیاگیاکہ اس سے ہدایا مراد ہیں۔ (دُرِّمنثور)
یعنی جو ہدیہ وغیرہ کسی کو اس غرض سے دیا جائے کہ وہ اس کے بدلہ میں بڑھ کر دے گا، مثلاً:کسی کی دعوت اس غرض سے کی جائے کہ پھروہ نذرانہ دے گا جو اس سے زیادہ دے گا جتنا دعوت میں خرچ کیا گیا۔ اسی میں نوتہ وغیرہ بھی داخل ہے کہ سب کے سب بڑھوتری کی نیت سے خرچ کیے جاتے ہیں۔ ان سب کا ایک ہی ضابطہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اضافہ اسی چیزکا ہوتاہے جو اس کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے۔
حضرت سعید بن جبیر ؒ فرماتے ہیں کہ جو کوئی ہدیہ اس نیت سے دیا جائے کہ اس کا بدلہ دنیامیںملے، اس کا کوئی ثواب آخرت میں نہیں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب آخرت کی نیت سے دیا ہی نہیں تووہاں کیوں ملے۔
حضرت کعب قرظی ؒ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کسی کو اس نیت سے دے کہ وہ بدلہ میںاس سے زیادہ دے گا، وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی اضافہ کا سبب نہیں۔ اورجو شخص محض اللہ کے واسطے دے کہ جس شخص کو دیا ہے اس سے کسی قسم کی مکافات اور بدلہ کا امیدوار نہ ہو، یہی وہ مال ہے جواللہ کے نزدیک بڑھتا رہتا ہے۔ (دُرِّمنثور)
لہٰذا جو لوگ کسی کو زکوٰۃ وغیرہ کا مال دے کر اس کے امیدوار رہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ احسان مند رہیں گے، وہ اپنے ثواب میںاس بدنیتی سے خودکمی کر دیتے ہیں۔ سب سے پہلی فصل کی آیات میں نمبر (۳۴ ) پر گزرا ہے:
{اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ  لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا o}
ہم تم کو محض اللہ کے واسطے کھلاتے ہیں۔ نہ تو ہم اس کاتم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ اس  کا شکریہ چاہتے ہیں۔
 اور حق تعالیٰ شانہٗ نے زیادہ بدلہ چاہنے کی نیت سے خرچ کرنے کو حضورِ اقدس ﷺ کو تو خاص طور سے منع فرمایا ہے۔ چناں چہ دوسری جگہ خصوصیت سے حضورﷺکو ارشاد ہے: {وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ o} (المدثر: ع۱)  ’’اور آپ کسی کو اس غرض سے نہ دیں کہ اس کا زیادہ معاوضہ چاہیں‘‘۔
Flag Counter