Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

166 - 607
ایک حدیث میں ہے کہ چار قسم کے آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ نہ تو جنت میں داخل فرمائیں گے، نہ جنت کی نعمتیں ان کو چکھنا نصیب ہوں گی۔ ایک وہ شخص جو ہمیشہ شراب پیتا ہو، دوسرے سود خور، تیسرے وہ شخص جو ناحق یتیم کا مال کھائے، چوتھے وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرے۔ (دُرِّمنثور) حضرت اقدس شاہ عبدا لعزیز  صاحب  ؒ نے تفسیر میں تحریر فرمایا ہے کہ یتیموں پر احسان دو قسم کا ہے۔ ایک تو وہ ہے جو وارثوں پر واجب ہے، مثلاً: اس کے مال کی حفاظت کہ اس میں زراعت یاتجارت وغیرہ سے ترقی ہو تاکہ اس کا نفقہ اورضروریات پوری ہوسکیں، اور اس کی خوراک پوشاک وغیرہ کی خبر گیری، نیزاس کے لکھنے پڑھنے اور تعلیمِ آداب وغیرہ کی خبر گیری۔ دوسری قسم وہ ہے جو عام آدمیوں پر واجب ہے۔ اور وہ اس کی اِیذا کو ترک کرنا ہے، اور نرمی اورمہربانی سے اس سے پیش آنا ہے، محفلوں اور مجالس میں اپنے پاس بٹھانا، اس کے سر پر ہاتھ پھیرنا، اپنی اولاد کی طرح اس کوگود میں لینا اور اس سے محبت ظاہر کرنا۔ اس لیے کہ جب وہ یتیم ہوگیا اس کاباپ نہ رہا تو حق تعالیٰ شا نہٗ نے سب بندوں کو حکم کیا کہ اس کے ساتھ باپ جیسا برتائو کریں اور اس کو اپنی اولاد کی طرح سمجھیں، تاکہ باپ کے مرنے کی وجہ سے جوعِجزِ حکمی اس کو لاحق ہوگیا اس قوتِ حقیقی کے ساتھ کہ ہزاروں آدمی اس کے باپ کی جگہ ہوجائیں، دور ہو جائے۔ پس یتیم بھی قرابتِ شرعی رکھتا ہے جیسا کہ دوسرے اَقارب قرابتِ عرفی رکھتے ہیں۔ (تفسیرِ عزیزی سورئہ بقرہ)
دوسرا مضمون جو آیتِ بالا میں خصوصی مذکور ہے وہ مسکین کے کھانے پر ترغیب نہ دینے پر تنبیہ ہے اور گویا بخل کے انتہائی درجہ کی طرف اشارہ ہے کہ خود تو وہ اپنا مال کیا خر چ کرتا وہ یہ بھی گوارہ نہیں کرتا کہ دوسرا بھی کوئی فقیروں پر خرچ کرے۔ قرآن پاک میں مسکینوں کے کھانا کھلانے پر بہت سی آیات میں ترغیب دی گئی جن میںسے بعض پہلے مذکور ہو چکی ہیں۔ سورئہ فجر میں ہے {کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ وَلَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo} اس میں اس پر بھی تنبیہ کی گئی کہ تم لوگ نہ تویتیموں کا اِکرام کرتے ہو نہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو۔
تیسری چیز جو آیتِ بالا میں ذکر کی گئی وہ ماعون کاروکنا ہے جس کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔ حضرتِ اقدس شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ نے تحریر فرمایا کہ اس سورت کا نام ماعون اس وجہ سے ہے کہ یہ احسان کا ادنیٰ درجہ ہے۔ اور جب کہ احسان نہ کرنے کا ادنیٰ درجہ بھی موجبِ حجاب وعتاب ہے تو اعلیٰ درجہ یعنی حقوق اللہ اور حقوق الناس کے ضائع کرنے سے بطریقِ اولیٰ ڈرنا چاہیے۔
یہاں تک اس مضمون کے متعلق چند آیات ذکر کی گئی ہیں۔ آگے چند احادیث اس مضمون کے متعلق لکھی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوگا کہ بخل اور مال کو جمع کرکے رکھنا کس قدر سخت چیز ہے۔
Flag Counter