Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

137 - 607
دوسرا شخص ایک عالم ہوگا جس کو بلا کر اللہ کے انعامات اور احسانات جتا کر اس سے بھی دریافت کیا جائے گا کہ اللہ کی ان نعمتوں میں تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے علم سیکھا اور لوگوں کو سکھایا، تیری رضا جوئی میں قرآن پاک پڑھتا رہا۔ ارشاد ہوگا: یہ سب جھوٹ ہے، یہ سب کچھ اس لیے کیاگیا تھاکہ لوگ کہیں گے کہ فلاں شخص بڑا عالم، بڑا قاری ہے، سو لوگوں نے کہہ دیا ہے۔ (اور جو مقصد اس محنت سے تھا وہ حاصل ہوچکا ہے) اس کے بعد اس کوبھی جہنم میں پھینکنے کا حکم کیاجائے گا اور تعمیلِ حکم میں منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔ تیسرا شخص ایک سخی ہوگا جس پراللہ نے دنیا میں بڑی وسعت فرما رکھی تھی، ہر قسم کے مال سے اس کو نوازا تھا، اس کو بلایا جائے گا اور جوا نعامات اللہ نے اس پر دنیا میں فرمائے تھے وہ جتا کرسوال کیا جائے گا کہ ان انعامات میں تیری کیاکارگزاری ہے؟ وہ عرض کرے گا کہ میں نے خیر کا کوئی موقع جس میں خرچ کرنا آپ کوپسند ہو ایسا نہیں چھوڑا جس میں آپ کی خوشنودی کے لیے خرچ نہ کیا ہو۔ ارشاد ہوگا: یہ جھوٹ ہے، تو نے محض اس لیے خرچ کیا کہ لوگ کہیںگے بڑا سخی شخص ہے، سو کہا جاچکا ہے ۔ اس کے بعداس کوبھی جہنم میں پھینکنے کا حکم ہوگا اور تعمیلِ حکم میں منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مشکاۃ المصابیح بروایۃ مسلم) 
اس حدیث میں، اور اسی طرح اور احادیث میںجہاں ایک شخص کا ذکرآتا ہے اس سے ایک قسم آدمیوںکی مراد ہوتی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ یہ معاملہ صرف تین آدمیوں کے ساتھ کیا جائے گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ تینوں قسم کے آدمیوں سے یہ مطالبہ ہوگا اورمثال کے طور پر ہر قسم میں سے ایک ایک آدمی کا ذکر کر دیا۔
ان کے علاوہ اور بھی احادیث میں کثرت سے اس پر تنبیہ کی گئی ہے اور بہت زیادہ اہمیت سے حضورِ اقدسﷺ نے اپنی امت کو اس پر متنبّہ کیا ہے کہ جو کام بھی کیاجائے وہ خالص اللہ  کے لیے کیا جائے، اور جتنا بھی اہتمام ہوسکے اس کاکیا جائے کہ اس میں ریااور نمود وشہرت اور دکھاوے کا شائبہ بھی نہ آنے پائے، مگراس جگہ شیطان کے ایک بڑے مکر سے بے فکر نہ ہونا چاہیے۔ دشمن جب قوی ہوتا ہے وہ مختلف انواع سے اپنی دشمنی نکالا کرتا ہے۔ یہ بہت مرتبہ آدمی کو اس وسوسہ کی بدولت کہ اخلاص تو ہے ہی نہیں، اہم ترین عبادتوں سے روک دیاکرتا ہے۔
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ شیطان اوّل تو نیک کام سے روکا کرتا ہے اور ایسے خیالات دل میں ڈالا کرتا ہے جس سے اس کام کے کرنے کا ارادہ ہی پیدا نہ ہو، لیکن جب آدمی اپنی ہمت سے اس کامقابلہ کرتا ہے اور اس کے روکنے پر عمل نہیں کرتا تو وہ کہاکرتا ہے تجھ میں اخلاص توہے ہی نہیں، یہ تیری عبادت محنت بے کار ہے، جب اخلاص ہی نہیں پھر ایسی عبادت کرنے سے کیا فائدہ؟ اور اس قسم کے وسوسے پیدا کرکے نیک کام سے روک دیا کرتا ہے۔ اور جب آدمی رک جاتا ہے تو اس کی غرض پوری ہو جاتی ہے۔ (اِحیاء العلوم) اس لیے اس خیال سے نیک کام کرنے سے رکنا نہیں چاہے کہ اخلاص تو ہے 
Flag Counter