Deobandi Books

تقریر ختم قرآن مجید و بخاری شریف

ہم نوٹ :

21 - 38
نہیں ہوں کسی کا  تو کیوں ہوں کسی کا
اُن ہی کا  اُن ہی کا  ہوا  جا رہا  ہوں
اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ ثنائے خلق کی دولت آپ کو دے دیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ دُعا سکھادی کہ حَسَنَۃ ہم سے مانگو، تمہارے اختیا رمیں نہیں ہے کہ نیک بیوی تم کو مل جائے، تمہارے اختیار میں نہیں ہے کہ نیک اولاد تم کو مل جائے، تمہارے اختیار میں نہیں ہے کہ مخلوق تمہاری تعریف کرے بلکہ جو اپنے منہ میاں مٹھو بنتا ہے اس کی اور تذلیل ہوتی ہے۔ اللہ سے حَسَنَۃ مانگو، اللہ جب دے گا تب اصلی چیز ملے گی اور غیب سے ملے گی اور بے خطر ہوگی۔ جب اللہ نعمت دیتا ہے تو نعمت کی اور نعمت پانے والےکی حفاظت بھی اپنے ذمہ لے لیتا ہے اور جو اپنی تعریف خود کرتا ہے، بِلامانگے بِلا دُعا جو کام کرتا ہے وہ کام اچھا نہیں ہوتا۔ تو بِحَمْدِہٖ سے کیا ملے گا؟ آپ محمود ہوجائیں گے۔ چوں کہ بِحَمْدِہٖ سے آپ حامد ہوئے اور جب حامد ہوئے تو اللہ تعالیٰ اس حمد کی برکت سے آپ کو محمود کردے گا یعنی ثنائے خلق کی نعمت سے اور حَسَنَۃ کی دولت سے مالامال کردے گا۔ 
اور آگے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا کہ پڑھو سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ اس کا اصطلاحی ترجمہ سن لو:
اَیْ اُسَبِّحُ اللہَ عَنِ النَّقَائِصِ کُلِّھَا عَلٰی حَسْبِ شَأْنِ عَظْمَتِہٖ18؎
میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہوں تمام نقائص سے اس کی شانِ عظمت کے شایانِ شان۔ تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:جَزَآءً  وِّفَاقًااللہ تعالیٰ کی جزا موافق عمل ہے یعنی اللہ تعالیٰ عمل کے موافق جزا دیتا ہے، تو تم جب اللہ کی عظمتِ شان بیان کروگے تو اللہ تعالیٰ اس کے صدقے میں تمہاری عظمتیں دوسرے بندوں کے دلوں میں ڈال دے گا، مگر یہ نیت نہ کرو کہ ہم بندوں کے دلوں میں عظیم ہوجائیں، اسی لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دُعا سکھلائی:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ فِیْ  عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَّ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا19؎
_____________________________________________
18؎    فتح الباری للعسقلانی:541/13 (7563)، باب قولہ ونضع الموازین القسط، دارالمعرفۃ، بیروت
19؎ مسند البزار: 315/10(4439)،مکتبۃ العلوم والحکم،المدینۃ المنورۃ
Flag Counter