Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

36 - 66
چنانچہ جب وہ سوال و جواب کرتے کرتے اِس مر حلہ پر آجاتے ہیں تو اِس کے لیے اُنہوں نے ایک اور چور در وازہ بھی تلاش کر رکھا ہے کہ اگر اُن کے عائد کردہ اِعتراضات کا جواب دے دیا جائے تب بھی اُنہیں حدیث سے راہ ِ فرار اِختیار کرنے میں کوئی دِقت پیش نہ آئے اور وہ یہ ہے کہ اَحادیث تشریعی اہمیت کی حامل نہیں ہیں بلکہ اِن کی حیثیت ایک تاریخ کی سی ہے چنانچہ منکرین ِ حدیث رقمطراز ہیں  : 
''اَلغرض حدیث کا صحیح مقام دینی تاریخ کا ہے،اِس سے تاریخی فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن دین میں حجت کے طور پر وہ نہیں پیش کی جا سکتی۔''  ١
چونکہ حدیث کی تشریعی حیثیت کے اِنکار سے رسول کی تشریعی حیثیت کا بھی اِنکار کرنا پڑتا ہے اِس لیے منکرین ِحدیث نے رسول کی تشریعی حیثیت کا اِنکار کر کے اُسے ایک عام اَمیر و حاکم کے برابر کردیا چنانچہ لکھتے ہیں  : 
''خدا کے اَحکام قرآنِ کریم میں منضبط تھے اور رسول اللہ بحیثیت مر کز نظامِ خداوندی اِن اَحکام کی اِطاعت حالات کے تقاضے کے مطابق اَفرادِ معاشرہ سے کراتے تھے۔'' 
لہٰذا اِس فاسد عقیدے کی تر دید کے لیے ہمیں قرآنِ پاک کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ قرآنِ پاک حضور علیہ السلام کو بطور ایک ایسے مرکز ملت (اَمیر وحاکم) کے پیش کرتا ہے کہ جس کا منصب رسالت تبلیغ قرآن پر ختم ہو جاتا ہے اور اِس کے بعد وہ اور ملت کے دیگر مراکز سب برابر ہیں  یا  بطور ایک ایسے جلیل القدر پیغمبر کے پیش کرتا ہے جو دیگر تمام اَنبیاء سے افضل ہیںاور جن کا اِتباع رہتی دُنیا تک پوری اُمت کے لیے فرض۔ حضرت مولانا بدر عالم صاحب نے حضور علیہ الصلٰوة والسلام کی وہ خصوصیات جو اُن کو ایک عام اَمیر و حاکم سے ممتاز کرتی ہیں بڑے عمدہ پیرائے میں بیان فرمائی ہیں میں اِختصاراً  ذکر کرتا ہوں۔ 
(١) ( اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰئِکَةِ رُسَلًا وَّ مِنَ النَّاسِ) (سُورة الحج  :  ٧٥ ) 
  ١   مقامِ حدیث ص ١٤١  طبع جدید 
Flag Counter