منفعت حاصل کرتاہے اگر ذاتی مفاد کے حرص کی جڑیں بالکل اُکھاڑدی جائیں تو محنت و مشقت کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا اور اِنسانیت ترقی کی تمام منزلوں سے محروم ہوجائے گی ،جو تعلیم اِنسانی فطرت کی اِس خصوصیت کونظر اَنداز کر کے حرص اور ذاتی مفاد کے شوق کو جڑ سے اُکھاڑ دیتی ہے اُس کو تعلیمِ فطرت اور اُس دین کو دین ِفطرت نہیں کہا جا سکتا جواِس طرح کی تعلیم کا معلم ہو، اِسلام ذاتی مفاد کے طبعی شوق کو ختم نہیں کرتا اَلبتہ اُس کو حقیقت پسند بناتا ہے۔ ذاتی مفاد کا شوق دولت کی صرف حفاظت پر ہی آمادہ نہیں کرتا بلکہ اُس کی عمر کو زیادہ سے زیادہ طویل کرناچاہتا ہے اور اُس کی آخری منشا یہ ہوتی ہے کہ اُس کی دولت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے وہ ایک لازوال نعمت بن جائے جس کو زمانہ کی کوئی گردش فناء نہ کرسکے۔
قرآنِ حکیم اِسی نقطہ کوسامنے رکھتا ہے اور فناء و بقاء کے فلسفہ کو ذہن نشین کراکے اِس حقیقت کا یقین پیدا کراتاہے کہ دولت کا بقاء تجوریوں میں بندکر نے اور زمین دوز خزانوں میں دفن کرنے سے نہیں ہوتا بلکہ اِس کے بقاء کی صورت یہ ہے کہ اِس پر اِنْفَاقْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہْ کا عمل زیادہ سے زیادہ کیا جائے بینک بیلنس آپ کا کتناہی زیادہ ہو اُس کی بقاء اور بچت زیادہ سے زیادہ اُس وقت تک ہے جب تک آپ میں لکھنے پڑھنے یابولنے چالنے کی طاقت ہے،اِس بچت کو آپ مابعد الموت کی زندگی کے لیے بھی محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو اِس کو بینک کے کھاتہ میں نہیں بلکہ اپنے نامۂ اَعمال کے رجسٹر میں مد ِخیر کے کھاتہ میں جمع کرائیے ،جو فنڈ تمہاری حفاظت میں ہے اُس کو بقاء نہیں، بقاء اُس کو ہے جو محافظِ حقیقی کی حفاظت اور اُس کی نگرانی میں ہے(مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ ) ١ ''جو تمہارے پاس ہے ختم ہوجائے گااور جو اللہ کے یہاں ہے وہ باقی ہے وہ دائم ولازوال ہے۔'' یہ ہے فناء میں بقاء کا فلسفہ ۔
آپ بینک میں رقم ڈیپازٹ کراتے ہیں کہ رقم محفوظ رہے اور اُس کا اِنٹرسٹ (سود) آپ کو ملتا رہے لیکن یہ ڈیپازٹ رقم آپ کی کب تک ہے ؟ اپنی دانست میں آپ نے بڑی دُور اَندیشی سے کام لیا کہ زندگی کا بیمہ کرادیا مگر کیا یہ بیمہ قضاء و قدر کے فیصلہ میں کوئی تبدیلی کر سکتا ہے ؟
عدالت نے کسی کو دیوالیہ قرار دے دیاہے تووہ کسی وقت دولتمندبھی بن سکتا ہے لیکن جس کو
١ سُورة النحل : ٩٦