رُوحانیت کے اعلیٰ ترین ماہر جن کو ''نبی ''کہا جاتا ہے وہ بہت پہلے سے بلکہ ہمیشہ سے یہی بتاتے رہے ہیں کہ ہرعمل ایک وجود رکھتا ہے اُس کی خاصیتیں ہوتی ہیں اور اُس کے اَثرات ہوتے ہیں جو عمل کرنے والے کی رُوحانیت سے پیوست ہوجاتے ہیں۔
ہمارے وجدان کی شہادت یہ ہے کہ عمل کی طرح ہماری خصلتوں کا بھی وجود ہے اِسی لیے اُن کے اَثرات چہرے پر نمایاں ہوتے ہیں، رحمدل کا چہرہ اُس کے دردِ دل کی شہادت دیتا ہے ،جفا کار اور سنگدل کو آپ اُس کے چہرے سے پہچان لیتے ہیں، اگر وفا اور جفا کا کوئی اپنا وجود نہیں ہے تو چہرے پر یہ آثار کیسے ہیں ؟ اِسی اصول کو اور آگے بڑھائیے بخل اور سخاوت فطرت اِنسان کی دو خصلتیں ہیں یا دو وصف ہیں، اُن کی کچھ خصوصیات ہیں کچھ لوازم و تاثیرات ہیں، ''بخل'' کے لیے حرص، طمع، تنگ نظری، خود غرضی، بزدلی، بے رحمی اور سنگدلی لازمی صفات ہیں جن کے نتیجہ میں ذخیرہ اَندوزی، چور بازاری، رشوت، خیانت اور سودجیسے زہریلے جراثیم پیدا ہوتے ہیں جو عوام کی خوشحالی کو ڈستے ہیں اوراُن میں بے اِطمینانی اور پریشان حالی کا زہر پھیلا دیتے ہیں۔
بخل کے مقابلہ پر'' سخاوت'' ہے جو دل کی بہادری اور حوصلہ کی بلندی چاہتی ہے، طبیعت میں بے نیازی پیدا کرتی ہے، دُوسروں کی ضرورتوں کا اِحساس اُن کی ضرورت کواپنی ضرورت پر مقدم رکھنا سخاوت اورجودو کرم کی اصل رُوح ہے، یہ رُوح کار فرما ہوتی ہے تو ہمدردی، غمخواری، رحم اور خد متِ ِخلق کے جوہر جلوہ گر ہوتے ہیں یعنی اِنسانیت کا جو بن نکھرتا ہے شرافت کا جھنڈا بلند ہوتا ہے میل ملاپ اور محبت کی فضاء ہموار ہوتی ہے، سخاوت اگر کارفرما ہو تو طبقاتی جنگ کی نوبت نہیں آتی کیونکہ دولتمند طبقہ ہمدرد و غمگسار ہوتا ہے اور غریب ونادار اُس کے وفادار اور جاں نثار ہوتے ہیں اور اِس طرح ایک ایسا نظم و ضبط قائم ہوجاتا ہے جو فطرتِ اِنسانی کے عین مطابق ہوتا ہے جو معاشرہ اور سماج کو اِطمینان کی دولت بخشتا ہے جس میں ایک دُوسرے سے نفرت اور بغض نہیں بلکہ محبت اور باہمی اعتماد کی نعمت میسر آتی ہے اور جب محبت اور اعتماد و تعاون کی کلیاں چٹختی ہیں تومعاشرہ اور سماج رواداری اور شریفانہ اَخلاق کا گلدستہ بن جاتا ہے، ہر ایک مذہب اِسی تہذیب کی حمایت کرتا ہے اور یہی تہذیب بہیمیت اور حیوانیت