تو گویا فرائض کی تعمیل ایسا پل ہے کہ جسے پار کیے بغیر اَخلاقِ فاضلہ تک صحیح معنوں میں رسائی نہیں ہو سکتی اور وہ صحابہ کرام کو معلوم تھے اُن پر عمل میں وہ ذرّہ برابر کوتاہی نہیں کرتے تھے اِس لیے آقائے نامدار ۖ نے وہ باتیں تعلیم فرمانی چاہیں کہ جن کے قبول کرنے کی اُن کے قلوب میں کامل اِستعداد پیدا ہو چکی تھی اِس لیے اِرشاد ہوا اِنَّ اَحَبَّ الْاَعْمَالِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی اَلْحُبُّ فِی اللّٰہِ وَالْبُغْضُ فِی اللّٰہِ۔
اِس میں گویا خواہش ِنفس کو قطعًا ختم کر دینے کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ کسی سے محبت اور نفرت کرنا بہت حد تک ایک دُوسرے سے نفع حاصل کرنے کی خاطر ہوا کرتا ہے اور کم اَز کم راحت تو ضرور حاصل ہوتی ہے مثلاً اِنسان اپنی اَپاہج اَولاد سے بھی محبت کرتا ہے اُس کی تکلیف دیکھ کر دِل بھر آتا ہے اور راحت دیکھ کر سکونِ قلبی حاصل ہوتی ہے مگر اِس حدیث ِ مبارکہ میں ایک اور محبت سکھائی گئی ہے جو اِس سے بھی اَعلیٰ اور لافانی ہے، وہ یہ ہے کہ بندہ دُوسرے سے محبت اور بغض میں کوئی لالچ اور ذاتی منفعت و مضرت کو پیش ِنظر رکھنے کے بجائے اپنی فطرت کو مغلوب کرکے صرف ذاتِ خدا وندی اور مرضیاتِ اِلٰہی کو اَپنا نے کا عادی بنے، اِس حد تک اِس کی مشق بڑھائے کہ اُسے ہر اُس شخص کو دیکھ کر راحت حاصل ہونے لگے جو خدا وند ِکریم کی مرضیات پر چلتا ہو، اور ہر اُس شخص کو دیکھ کرطبیعت بھاگنے لگے جو خدا کی نا فرمانی میں لگا ہو، یہی نہیں بلکہ یہ بھی ٹیسٹ کرے کہ نافرمان شخص اگر آج توبہ کر رہا ہے تو آیا اُسے اِس سے ایک دم نفرت کے بجائے محبت ہوتی ہے یا نہیں ؟ اور فرمانبردار شخص اگر معاذ اللہ معصیت میں مبتلا ہوجائے تو اِس سے طبیعت کونفرت ہوتی ہے یا نہیں ؟ گویا کسی کی ذات نہ اُسے محبوب ہو نہ مبغوض، نہ اُسے کسی سے اُلفت ہو نہ نفرت بلکہ صرف خدا کی رضا طلبی اُس کی رضامندی بن جائے اور خداکی معصیت اُس کے نزدیک ایک نفرت کی چیز ہو اور حظ ِنفس قطعًا فنا ہوجائے۔
بس یہ محبت کی اعلیٰ قسم ہے جسے یہ محبت و عداوت حاصل ہوگی اُسے گویا ایک قسم کی غناء حاصل ہوگی اِس لیے صحابہ کرام کو جوخیارِ اُمت تھے جنابِ رسول اللہ ۖ نے ایک دِن اِس کی تعلیم دی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں غلط راستے پرچلنے سے محفوظ رکھے راہِ راست پر قائم رکھے اور آخرت میں آقائے نامدار ۖ کا ساتھ نصیب فرمائے،آمین۔اِختتامی دُعا.............