خدا کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے ؟ پھر جب صحابہ کرام نے جو اُن کی نظر میں سب سے زیادہ بڑی نیکیاں تھیں ذکر کیں تب آخر میں آپ نے فرمایاکہ خدا کو سب سے محبوب عمل حُب فی اللہ اور بغض فی اللہ ہے۔
ممکن ہے آپ کو اِس حدیث پاک کو پڑھ خیال ہو کہ جو اِس پر عمل کرے اُسے نماز، روزے اور زکوة کی بھی ضرورت نہیں رہے گی تو اِس کے بارے میں عرض ہے کہ نماز،زکوة یا جو نیکیاں صحابہ کرام کو معلوم تھیں اور فرض تھیں اُن کی نفی فرمانی مقصود نہیں بلکہ مزید ایک نیکی تعلیم فرمانی مقصود ہے تاکہ جو باتیں پہلے بتلائی جا چکی ہیں اُن پر عمل کرنے اور اُنہیں فرض جاننے کے ساتھ ساتھ اِس چیز کے حصول کی بھی کوشش کرتے رہیں کیونکہ ایسی نیکیاں جیسے حب فی اللہ اور بغض فی اللہ وغیرہ خود در اصل نماز وغیرہ کے ثمرات میں سے ہیں، یہ فرض عبادتیں تواُن کی جڑ ہیں جس طرح جڑ کے بغیر شاخ اور پھل نہیں ہوتے ہیں اِسی طرح یہ عمدہ اَخلاق بغیر نماز جیسی فرض طاعتوں کے حاصل نہیں ہوتے۔
اور یاد رکھیں کہ ہرعبادت کی کوئی خاص تاثیر بھی ہوتی ہے کیونکہ ہر عبادت میں مسلمان اللہ کی ذاتِ پاک کی طرف تھوڑی بہت توجہ ضرور کرتا ہے کسی کی توجہ لمحہ بھر کسی کی چندمنٹ رہتی ہے توکسی کی تمام عبادت کے دوران قائم رہتی ہے اور کسی کا یہ حال ہوتا ہے کہ خدا وند ِکریم کی ذات کی طرف ہر وقت ہی قلب متوجہ رہتا ہے اور نماز وغیرہ عبادتوں میں اور زیادہ متوجہ ہوجاتا ہے۔ غرض ہر شخص کو عبادت میں اُتنا حصہ نصیب ہو ہی جاتا ہے جتنی اُس کی توجہ رہے،عام لوگوں کی توجہ چند لمحے رہتی ہے پھر دِل و دماغ اِدھر اُدھر چکر کاٹنے لگتے ہیں مگر یہ تھوڑی تھوڑی توجہ بھی کام دیتی ہے یہ بڑی ہی قیمتی چیز ہے کیونکہ توجہ اِلی اللہ کے وقت جسم ِ اِنسانی میں نورانی لہریں پیدا ہوتی ہیں اور توجہ اِلی اللہ کے وقت جو نورانیت پیدا ہوتی ہے وہ غذائِ رُوح ہے اِس سے رُوحِ اِنسانی کو قوت و صحت دونوں حاصل ہوتی ہیں اور اِنسان کے اَخلاق خود بخود رُوح قوت اورصحت کے ساتھ درست ہونے شروع جاتے ہیںاِرشادِ ربانی ہے (اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ) یقینا نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کی یاد یقینا سب سے بڑی ہے۔