پائے جو اِن کی حکمت و دانائی اور کمالِ بصیرت کی واضح دلیل ہے۔ اِسی طرح اُن کے روشن دماغ نے آزاد تعلیم کے لیے آزاد ذریعۂ آمدنی کا نکتہ بھی ڈھونڈ نکالا یعنی عوامی مدرسے کے مصارف عوامی چندے سے پورے ہوں جو سر تاپا اَخلاص پر مبنی ہوں اور دینے والا اپنا پیسہ اِحسان جتاکرنہ دے بلکہ اِس کو توشۂ آخرت سمجھ کر دے اور اِس طرح خود ہی پیسہ دے کر خود کو مدرسے کا اِحسان مند قرار دے کہ اِس اِنفاق واِمداد کی وجہ سے اُس کی آخرت سنور سکتی ہے۔ اِسی بنیادی نقطہ کے ساتھ ٣ مئی ١٨٦٦ء مطابق ١٥ محرم الحرام ١٢٨٣ھ بروز جمعرات دارُ العلوم دیو بند کا قیام عمل میں آیا، پھر مدرسہ شاہی مرادآباد، مظاہر العلوم سہارنپور، مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی بلندشہر، اِسی طرح اَمروہہ، میرٹھ اور دیگر کئی شہروں میں حضرت نا نوتوی کے ذریعہ سے قائم کیے ہوئے اور اِس کے بعد اِسی تحریک کے تحت پورے ہندوستان میں مدارس کا جال پھیلا کر انگریزوں کے ناپاک منصوبے کوناکام بنایا گیا۔
یقینا حضرت نا نو توی کے اندر حمیت ِ دینی اور غیرتِ اِسلامی ہی کا وہ جوہرتھا جس نے آپ کو ایک میدان میں ناکامی کے بعد بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا بلکہ آپ نے ہمت کے ساتھ ساتھ حکمت وبصیرت سے کام لیتے ہوئے دُوسرا مورچہ سنبھا لا تاکہ اِس کے ذریعہ حفاظت ِ دین کا کام بھی ہو اور پہلے مورچہ کے لیے اَفراد بھی تیار ہو سکیں۔
حضرت مولانا مناظر اَحسن صاحب گیلانی رحمة اللہ علیہ قیامِ دارُ العلوم کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
''١٨٥٧ء کی کشمکش کی ناکامی کے بعد قتال اور آویزش کے نئے محاذوں اور میدانوں کی تیاری میں آپ کا دفاغ مصروف ہو گیا۔ دارُ العلوم دیوبند کا تعلیمی نظام اِسی لائحہ عمل کاسب سے زیادہ نمایاں اور مر کزی و جوہری عنصر تھا۔'' ١
١ سوانح ِ قاسمی ج ٢ ص ٢٢٣