سہا رنپور سے کیرانہ جا رہا تھا اور اُن کو قتل کر کے اُن کا سارا سازو سامان لوٹ لیا۔
علمائِ کرام اورخصوصًا حضرت نا نو توی اوراُن کے رفقاء جو سب سے زیادہ حساس تھے، وہ کیسے خاموش رہ سکتے تھے کیونکہ اُن کو مادّی وجود سے زیادہ دینی وجود کا خطرہ لاحق تھا لہٰذا اُنہوں نے حضرت حاجی اِمداد اللہ مہاجر مکی کی سر براہی میں مشورہ کیا اور جن حضرات نے قلت ِ اَسباب یا اَمیر نہ ہونے کی دلیل دے کر دینی اِعتبار سے جہاد نہ کرنے کی رائے ظاہر کی تو حضرت نا نو توی ہی نے جنگ ِ بدر میں اَسباب کی کمی کا حوالہ دیا اور اَمیر المومنین کے لیے حضرت حاجی صاحب کے ہاتھ پر سب سے پہلے بیعت ِ جہاد کر کے ایک اہم ترین مسئلہ کابہترین حل پیش کردیا جس کے بارے میں کسی کو لب کشائی کی جرأت نہیں ہو سکتی تھی چنانچہ ١٨٥٧ء کے جہاد ِ حریت میں آپ نے بہ نفسِ نفیس عملی طورپر حصہ لیا اور میدانِ شاملی میں چیف کمانڈر کی حیثیت سے قائدانہ اوراِنتہائی سر فروشانہ کر دار اَدا کیا۔
اِسی میدانِ شاملی کے اور کئی واقعات ہیں جو حمیت اور ہمت و جوانمردی کے بین ثبوت ہیں لیکن مقصد وا قعات کا اِحاطہ نہیں بلکہ ہمیں اپنے اَندر اِس اسپڑٹ کو پیدا کرنا ہے۔
جہادِ حریت میں ناکامی اورقیامِ مدارس کی تحریک :
مختصر عرض ہے کہ ١٨٥٧ء میں ہندوستانیوں کی عمومی شکست اور اُس کے ہو لناک واقعات کے بعد اَنگریزوں نے صرف اپنا نظامِ حکومت ہی نہیں بلکہ اپنا مکمل دستور ِ حیات غلام ہندوستان پرمسلط کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی چنانچہ برطانیہ کی پارلیمنٹ میں اُس کے ممبر مسٹر مینگلس نے ١٨٥٧ء میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ
''ہر شخص کو اپنی تمام تر قوت ہندوستان کو عیسائی بنانے کے عظیم الشان کام کی تکمیل میں صرف کرنی چاہیے۔ ١ ''
١ حجة الاسلام الامام محمدقاسم نا نو توی حیات ، اَفکار، خدمات ص ١٤٠