توبہ و اِستغفار کامطلب یہ ہے کہ جب بندے سے اللہ کی نافرمانی اور گناہ کاکوئی کام ہو جائے تو وہ اُس پرنادم اور شر مندہ ہو اور آئندہ اُس گناہ سے بچنے کااِرادہ کر لے اور اللہ سے اپنے کیے ہوئے گناہوں کی معافی چاہے، قرآن و حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ بس اِتنا کرنے سے اللہ تعالیٰ اُس بندے سے راضی ہو جاتا ہے اور اُس کا گناہ معاف کردیا جاتا ہے۔
یادرکھنا چاہیے کہ توبہ صرف زبان سے نہیں ہوتی بلکہ کیے ہوئے گناہ پر دل سے ندامت اور رنج و اَفسوس ہونا ضروری ہے اور آئندہ پھرکبھی اُس گناہ کے نہ کرنے کا اِرادہ بھی دل سے ہونا لازمی ہے، توبہ کی مثال بالکل ایسی ہے کہ کوئی آدمی غصہ یا رنج کی حالت میں خود کُشی کے اِرادہ سے زہر کھا لے اور جب اُس کے اَثر سے آنتیں کٹنے لگیں اور سخت تکلیف ہونے لگے تو اُسے اپنی اِس غلطی پر اَفسوس و رنج ہواوروہ علاج کے لیے تڑپے اور حکیم و ڈاکٹر جو دوا بتائیں وہی پیے، اُس وقت اُس کے دِل کا فیصلہ قطعًا یہی ہوگا کہ اگر میں زندہ بچ گیا تو آئندہ کبھی ایسی حماقت نہیں کروں گا، بس گناہ سے توبہ کرنے والے کے دل میں کیفیت بھی ایسی ہی ہونی چاہیے یعنی اللہ تعالیٰ کی نارا ضگی اور آخرت کے عذاب کا خیال کر کے اُس کو ا پنے گناہ پر خوب رنج اور اَفسوس ہو اور آئندہ کے لیے اُس وقت اُس کے دل کایہ فیصلہ ہو کہ اب کبھی ایسا نہیں کروں گا اورجو ہو چکا اُس کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی اور بخشش کی دُعا ہو۔
اگر اللہ تعالیٰ کسی در جے میں یہ بات نصیب فرما دے تو یقین رکھنا چاہیے کہ گناہ کا اَثر بالکل مٹ گیا اور اللہ کی رحمت کا دروازہ کھل گیا ایسی توبہ کے بعد گنہگار گناہ کے اَثر سے بالکل پاک صاف ہو جاتاہے بلکہ اللہ تعالیٰ کوپہلے سے زیادہ پیارا ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی تو گناہ کے بعد سچی توبہ کے ذریعہ بندہ اُس درجہ پر پہنچ جاتاہے جس پر سینکڑوں سال کی عبادت و ریاضت سے بھی پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔
یہاں تک جو کچھ لکھا گیا یہ سب آیات واَحادیث کا مضمون ہے ،اب چند آیتیں اور حدیثیں بھی توبہ و اِستغفار کے متعلق لکھی جاتی ہیں سورۂ تحریم میں اِرشاد ہے :
( یٰآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْآ اِلَی اللّٰہِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ) (سورة التحریم : ٨)
''