کہ فرشتوں کاایک دستہ اِس کے حوالے کردیتاجواُس کے جلومیں رہتا۔ '' ١
دیوتا ؤں کو پوجنے والی بادشاہ کی قوم نے نہ صرف یہ کہ اُس کو مُلک کامالک مانابلکہ اُس نے سب کو جمع کر کے یہ اِعلان کیاکہ میں تمہارا سب سے بڑا دیوتا ''رب اَعلیٰ '' ہوں۔ (سورۂ ناز عات : ٢٣ ، ٢٤) تو اِس(سوال) کے جواب میں بھی (قوم نے)گر دنیں جھکا دیں اور آستانہ ٔ ملوکیت پر پیشانیاں پٹک دیں نبی اُس قوم کوخدا ترس و خدا پرست بنانا چاہتا تھا مگر قوم کی مفاد پرستی نے اِس کی اِجازت نہیں دی اُس نے نبی سے بغاوت کی اور شاہ پرست و مفادپرست بنی رہی۔ نبی اور با دشاہ کی طویل کشمکش کا آخری نتیجہ قرآنِ پاک کے الفاظ میں یہ ہوا : ( فَاَغْرَقْنَاھُمْ تا لِلْآخِرِیْنَ)(زخرف آیت : ٥٥، ٥٦)
خلاصہ یہ کہ ہم نے اُن سب کوڈبو دیا یہ قوم (اپنی ہستی کے لحاظ سے) رفت دگز شت اور داستانِ پارینہ رہ گئی (مگر) بعد میں آنے والوں کے لیے ایک مثال (اور درسِ عبرت) بن گئی۔
اِس مثال نے جہاں اور باتیں بتائیں، مَلوکیت کے معنی اور اُس کی خصوصیات کی بھی نشاندہی کردی۔ مَلِک یا بادشاہ اپنے آپ کو''مالک ِ ملک ''اوراپنی اَولاد کو''وارثِ مُلک'' سمجھتا ہے بادشاہت اُس کا نصب العین ہوتاہے اُس کے لیے وہ ہر ایک ظلم کواپنا حق سمجھتاہے وہ اِنسانوں کے گروہ میں پھوٹ ڈال کر اُن کوپار ٹیوں میں بھی بانٹ دیتاہے اور جب ضرورت سمجھتا ہے اِنسانوں کے جگر پاروں کو ذبح کرنے اورموت کے گھاٹ اُتار نے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
وہ اِنسانوں کی گردنیں جھکانے کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اُن کے دل جھکیں اور اُس کی با دشاہت کووہ اپناعقیدہ بنا لیں اور بہت اچھا ہوکہ وہ اِس کو اپنا معبود بنا لیں اور دیو تا سمجھنے لگیں وہ کسی دستور کی پابندی کو کسرِ شان سمجھتا ہے بلکہ خود اُس کا'' منشاء ''دستور اوراُس کی'' زبان'' اُس کا قانون ہوتاہے یہ ہے ''ملوکیت ِکاملہ'' جس کو'' فر عونیت'' سے تعبیر کیا جاسکتاہے۔
ملوکیت کے اِس تجزیے کے بعد کتاب اللہ کی آیاتِ بینات پر نظر ڈالو وہ کس طرح اُس کے ہر ایک جزو کی تر دید کر رہی ہیں، ایک جگہ نہیںبلکہ بار بار یہ مضمون دہرایا گیا ہے۔
١ خلاصہ آیات سورۂ زخرف : ٥١ تا ٥٣