عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
دوستو! اگر کوئی اور خدا ہوتا توہم کہہ دیتے کہ اللہ میاں! ہم آپ کے راستے میں نہیں چل سکے، ہماری تو بہ بہت ٹوٹ رہی ہے، لہٰذا اب کسی دوسرے خدا کے پاس ہم جارہے ہیں۔ ایک ہی تو اللہ ہے۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہاں جاؤ گے؟ ان ہی کا دروازہ ہے، کوئی اور دروازہ بھی نہیں، ہر صورت میں ان ہی کے دروازے پر روتے رہو، اُسی کے گیت گاتے رہو، ان کی حمد و ثنا کرتے رہو۔ ایک شخص ایک بزرگ سے بیعت ہوئے، سردیوں میں بھی تہجد کے وقت میں روزانہ وہ بزرگ اُٹھتے تھے۔ آواز آئی اے شخص! مجھے تیری تہجد قبول نہیں ہے۔روز وہ مرید یہ آواز آسمان سے سنتا رہا۔ تو شیخ سے اس نے کہا کہ حضرت میں ایک آواز سنتا ہوں جب آپ تہجد پڑھتے ہیں۔ وہ آواز یہ ہے کہ اے شخص! مجھے تیری تہجد قبول نہیں۔ جب حضور آپ کی تہجد اللہ کے ہاں قبول نہیں تو پھر آپ یہ محنت کیوں کرتے ہیں؟ آرام سے سوئیے۔ حضرت نے کہا کہ بھئی بات یہ ہے کہ ایک ہی اللہ ہے میرا، دنیا میں بھی اسی سے پالا پڑا ہے اور آخرت میں بھی، قیامت کے دن بھی ان ہی سے پالا پڑے گا۔ ہمارا کام بندگی کرنا ہے، ان کا کام قبول کرنا ہے۔ وہ اپنا کام جانیں ہم تو اپنا کام کرتے رہیں گے۔ قبول کرنا نہ کرنا تو ان کا کام ہے، میں مالک کے عظیم الشان کا م میں کیسے دخل دے سکتا ہوں؟ ہمارا کام تو رونا گِڑ گڑانا ہے اور قبولیت کے لیے آہ و زاری کرنا ہے۔ ہم اپنا کام کیے جائیں گے وہ قبول کریں یا نہ کریں۔ ایک شاعر نے کہا تھا ؎اگر بخشیں ز ہے قسمت نہ بخشیں تو شکایت کیا سر تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے حضرت حکیم الامت مجدد الملّت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃاللہ علیہ نے جب یہ شعر دیکھا تو فرمایا کہ یہ شاعر بے سمجھ ہے، اہل اللہ کا صحبت یافتہ معلوم نہیں ہوتا، اس لیے سلامتیٔ فہم سے محروم معلوم ہوتا ہے۔ یہ تو اکڑ دکھارہا ہے کہ اگر بخشیں ز ہے قسمت نہ بخشیں تو شکایت کیا، یعنی خم ٹھونک کر اللہ میاں کو پہلوانی دکھارہا ہے کہ اگر آپ نے جہنم میں بھیج دیا تو میں اس کے لیے بالکل تیار ہوں۔ یہ تو بہت بڑی گستاخی ہے۔ جہنم سے بڑے بڑے نبیوں نے پناہ مانگی ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے کوئی شکایت ہی نہیں، میں جہنم کے لیے خم ٹھونک کر بالکل تیار