عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
بیٹھا ہوا ہوں جیسے پہلوان جب اکھاڑے میں جاتا ہے تو بہادری دکھانے کے لیے اپنی ران پر زور سے ہاتھ مارتا ہے، جسے خم ٹھونکنا کہتے ہیں کہ میں میدان میں آگیا ہوں، کوئی ہے میرے مقابلے میں آنے والا۔ حضرت نے فرمایا کہ شعریوں ہونا چاہیے۔ دیکھیے حکیم الامت اس شعر کی اصلاح فرمارہے ہیں ؎اگر بخشیں زہے قسمت نہ بخشیں تو کروں زاری کہ اس بندے کی خواری کیوں مزاجِ یار میں آئے نہیں بخشیں گے تو ا ُن سے روؤں گا۔ اللہ سے رونے سے کام چلتا ہے، بہادری دکھانے سے نہیں چلتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک بار بخار آگیا تو آپ ہائے ہائے کرنے لگے۔ لوگوں نے کہا کہ اتنے بہادر صحابی ہوکر آپ ہائے ہائے کرتے ہیں؟ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بخار میری ہائے ہائے سننے کے لیے دیا ہے، عمر کی پہلوانی دیکھنے کے لیے نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ جب ہماری شکستگی اور عاجزی دیکھنا چاہیں تو ہم کیوں پہلوانی دکھائیں؟ بعض لوگ عید کا چاند دیکھ کر کہتے ہیں ہائے ہائے رمضان چلا گیا! کیا ہائے ہائے کرتے ہو، خوب کھاؤ پیو۔ ہائے ہائے کرنے کا کسی حدیث میں حکم نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب عید کا چاند دیکھو تو خبردار عید کے دن روزہ نہ رکھو، عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے اور ہائے ہائے کرنے کے بجائے فرمایا کہ کھانے پینے کے دن ہیں۔ یہ محاورہ ہے یعنی خوشی منانے کے دن ہیں۔ جیسے ہم لوگ کہتے ہیں کہ برسات ہے ، کھانے پینے کے دن ہیں، پھلوڑیاں پکاؤ۔ رمضان میں جب باندھ دیں بندھے رہو، نہ کھاؤ نہ پیو، لیکن رمضان کے بعد جب کھول دیں تو ہائے ہائے نہ کرو کہ ہائے وہ رسی بڑی اچھی تھی۔ یہی کہو کہ اللہ! تیرا شکر ہے کہ آپ نے ہمارا منہ کھول دیا، اب آپ کی نعمتیں خوب کھائیں گے، پئیں گے، جیسے چھوٹے بچے جب اسکول سے چھوٹتے ہیں تو کیسے چلتے ہیں؟ سنجیدگی سے ؟ افسوس کرتے ہوئے کہ ہائے پیریڈ جلدی ختم ہوگیا؟ اسکول کا گھنٹہ کچھ دیر اور چلتا؟ یا اُچھلتے کودتے خوشیاں مناتے ہوئے چلتے ہیں؟ بس بندے کو ایسے ہی رہنا چاہیے ؎چوں کہ برمیخت بہ بندوبستہ باش چوں کشاید چابک و برجستہ باش