عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
رکھے۔ اگر اپنی بہو سے اپنا اکرام چاہتی ہے تو آج اپنی ساس کا اکرام کرے۔ اور بیٹے صاحب اگر اپنی اولاد سے آرام اُٹھانا چاہتے ہیں تو آج اپنے ماں باپ کا ادب کریں۔ کل ان کی اولاد، ان کی بہو اور داماد ان کے ناز اُٹھائیں گے اور ان کا ادب و اکرام کریں گے۔ ماں باپ کو ستانے کا عذاب میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک شخص نے اپنے باپ کی گردن میں رسی ڈال کر بسواری تک کھینچا، یعنی بانس کے درختوں تک کھینچ کر لے گیا۔ باپ نے بیٹے سے کہا کہ بیٹے! اب آگے نہ کھینچنا ورنہ تو ظالم ہوجائے گا۔ بیٹے نے کہا کہ ابّا! دروازے سے یہاں تک چالیس پچاس قدم جو کھینچا یہ ظلم نہیں ہوا؟ کہا نہیں،کیوں کہ میں نے تیرے دادا کو یعنی اپنے بابا کو یہاں تک کھینچا تھا۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ اور گناہوں کا عذاب تو آخرت میں ہوگا، لیکن ماں باپ کے ستانے کا عذاب دنیا میں بھی ملتا ہے۔ جو اپنے ماں باپ کو ستاتا ہے اس کو موت نہیں آسکتی جب تک وہ اپنے کیے کی سزا نہ بھگت لے۔اس لیے ماں باپ کے معاملے میں تحمل سے کام لینا چاہیے، مشورہ کرتے رہنا چاہیے۔ اگر ان کی طرف سے کوئی زیادتی بھی ہوجائے تو ان کی عمر کا لحاظ کرکے در گزر کرنا چاہیے جیسے چھوٹے بچے نے کوئی غلطی کی تو آپ کہتے ہیں کہ چھوٹے بچے ہیں۔ اسی طرح جب ماں باپ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو ان کی عقل بھی کمزور ہوجاتی ہے۔ ایک ہندو بنیے کا قصہ ہے۔ وہ اپنے چھوٹے بچے کو گود میں لیے اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا تھا۔ ایک کوّا اس کی دیوار پر آکر بیٹھ گیا۔ بچے نے اپنے بابا سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا بیٹے یہ کوّا ہے۔ بچہ بار بار پوچھتا رہا اور یہ بار بار اسے بتاتا رہا، یہاں تک کہ بچے نے سو دفعہ یہی بات پوچھی۔ بنیے نے اپنے منشی سے کہا کہ کھاتے میں اس واقعے کو نوٹ کرلو۔ جب وہ بڈھا ہوا تو ایک دن دیوار پر کوّا آکر بیٹھا، تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اے بیٹے! یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ کوّا ہے۔ تین دفعہ پوچھنے کے بعد جب باپ نے چوتھی دفعہ پوچھا، تو بیٹے نے کہا زیادہ ٹرٹر نہ کرو، سیدھے پڑے رہو، کیا رٹ لگا رکھی ہے ؟ تین دفعہ تو جواب دے چکا ہوں۔ تو باپ نے اپنی نوٹ بُک منگواکر بیٹے کو دکھائی کہ جب تم چھوٹے تھےتو تم نے یہی سوال مجھ سے سو دفعہ پوچھا