عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
میں ایک واسطہ تھا۔ معلوم ہوا کہ مدارس بھی ضروری ہیں، تبلیغ بھی ضروری، تزکیہ بھی ضروری۔ مدرسے نہ ہوں تو علم کیسے حاصل ہوگا؟ خانقاہیں نہ ہوں تو تزکیہ کیسے ہوگا؟ دین کا ہر شعبہ اہم ہے، اسی لیے میرے مرشد حضرت مولانا ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم العالیہ (اب رحمۃاللہ علیہ ہوگئے) فرماتے ہیں کہ دین میں ایک دوسرے کے رفیق بنو، فریق نہ بنو۔ تومیں عرض کرر ہا تھا کہ جب شیخ نے یہ کہا کہ اے شخص! تو نے بارہ دفعہ یہی غلطی کی ہے، میں تجھ کوکتنا بھگتوں ؟یعنی کتنا برداشت کروں۔ تو حضرت مولانا الیاس صاحب پاس بیٹھے تھے، شیخ کے کان میں کہا کہ مولوی جی! اتنا بھگت لو جتنا کل اپنا بھگتوانا ہے۔ یعنی کل قیامت کے دن جتنی اپنی معافی کروانی ہے اتنا دوسروں کو معاف کردو۔ معاف نہ کرنے پر سخت وعید حضرت حکیم الامّت مجددالملّت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی مجھ سے معافی مانگتا ہے تو میں فوراً معاف کردیتا ہوں، کیوں کہ اشرف علی کو بھی تو اپنی معافی کروانی ہے۔ لیکن بعض استاد بلکہ بعض ماں باپ بھی نادان ہوتے ہیں۔ اُن سے معافی مانگی جائے تو کہتے ہیں:نہیں ! ہم نہیں معاف کرتے ، ہمارے جنازے میں بھی مت شریک ہونا۔ آپ جانتے ہیں کہ جو کسی معافی مانگنے والے مسلمان بھائی کو معاف نہ کرے اُس کی کتنی بڑی سزا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: مَنْ اَتَاہُ اَخُوْہُ مُتَنَصِّلًا فَلْیَقْبَلْ ذٰلِکَ مِنْہُ مُحِقًّا کَانَ اَوْ مُبْطِلًا فَاِنْ لَّمْ یَفْعَلْ لَمْ یَرِدْ عَلَیَّ الْحَوْضَ 4؎یعنی جو اپنے مسلمان بھائی کی معافی کو قبول نہ کرے وہ میرے حوض کوثر پر نہ آئے۔ سوچ لو کہ قیامت کے دن کتنی پیاس لگے گی! شافعِ محشر کے جامِ کوثر سے یہ شخص محروم ہوگیا۔ بیٹے کے سُسرال والوں کے بعض حقوق ایک شخص ندامت کے ساتھ معافی مانگ رہا ہے، لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ہر گز _____________________________________________ 4؎کنز العمال :378/3(7029)، باب فی تعدید الاخلاق المذمومۃ،مؤسسۃ الرسالۃ۔الجامع الصغیر:158/1