عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
اس سے کاٹ دیں گے اور اس کی نحوست سے دُعا قبول نہیں ہوگی،لہٰذا خالہ سے معافی مانگ کر دُعا سلام کرکے ، معاملہ ٹھیک کرکے آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے۔ لہٰذا ذرا ذرا سی بات پر سگے بھائی سے، چچا، ماموں، دادا، نانا یعنی خون کے رشتوں سے رشتہ نہ توڑو۔ بلاضرورتِ شدیدہ خون کے رشتوں کو کاٹنا جائز نہیں۔ حقوقِ رشتہ داری کے حدود ہاں کوئی وجہ ہو تو عُلماء سے پوچھو کہ ان حالات میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ مثلاً کوئی رشتہ دار ہر وقت بچھو کی طرح ڈستا رہتا ہے یا کوئی بددین ہے جو تمہیں بُرائی میں زبردستی شریک کرنا چاہتا ہے کہ میرے یہاں آنا پڑے گا، ٹی وی دیکھنا پڑے گا۔ اگر دین کی وجہ سے رشتہ داری کا حق ادا نہیں کرسکے تو ٹھیک ہے، ایسے لوگوں کے پاس اس وقت مت جاؤ، لیکن بعد میں نرمی سےسمجھاؤ، اللہ والوں کے پاس لے جاؤ، ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔ بہت ہی شدید حالات میں ترکِ تعلق جائز ہے، لیکن اس کے لیے علماء سے مشورہ ضروری ہے۔ کسی صاحب کو ایسے حالات پیش ہوں تو وہ مجھ سے تنہائی میں مشورہ کرلیں۔ مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ میں اس کی بہت زبردست بحث ہے، اس کے حوالے سے ان شاء اللہ تعالیٰ ان کو مشورہ دے سکوں گا۔ ان معاملات میں اس مشورہ کو میرے شیخ نے بھی بہت پسند فرمایا۔ لیکن بغیر علم کی روشنی کے محض اپنی رائے سے بدون علماء کے مشورہ کے قریبی عزیزوں سے قطع تعلق کرنا جائز نہیں ہے۔ دوستو! حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ رحم کو زبان دے دے گا یعنی خون کے رشتے کو اللہ زبان دے دیں گے۔ وہ کہے گا کہ یااللہ! میں خو ن کا رشتہ ہوں، آپ نے میرا نام رحم رکھا ہے، آپ کا نام رحمٰن ہے، میں آپ سے مشتق ہوں یعنی آپ سے کٹ کر نکلا ہوں، لہٰذا میرا حق دلوائیے۔ جس نے مجھے جوڑا آپ اس سے جوڑ لیجیے اور جس نے مجھے کاٹا آج اُسے آپ کاٹ دیجیے۔ کتنا اہم معاملہ ہے! اس لیے مشورہ کرلیجیے، اگرچہ بعض سخت حالات میں مجبوریوں کے تحت قطع تعلق کی اجازت کی صورتیں ہیں، لیکن جہاں تک ہوسکے نباہ کرو، بلاضرورت ذرا ذرا سی بات پر خون کے رشتوں کو نہ کاٹو۔