عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
باپ کے معاف نہیں کرتا۔ تم نے میرے بیٹے کو کیوں ستایا؟ بارہا ایسا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بندے کو کسی نے ستایا تو بندے نے معاف کردیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے معاف نہیں کیا۔ اس لیے بیٹوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے عرض کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ہم سے پوچھ لیا کہ تم نے میرے نبی یوسف علیہ السلام کو کس لیے کنویں میں ڈالا تھا، کس جرم کی بنا پر تم نے ان کو ستایا تھا،تو ہم اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ لہٰذا اے ہمارے ابّا جان! آپ ہمارے لیے رو رو کر دعا مانگیے،آسمان سے معافی حاصل کیجیے۔ بھائی یوسف نے تو معاف کردیا، اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی معافی دلوادیجیے، تاکہ قیامت کے دن ہم سب بھائیوں کی ذلت و پریشانی کا خطرہ ختم ہوجائے۔ قبولیتِ دعا میں تاخیر کی مصلحت حضرت یعقوب علیہ السلام نے تقریباً بیس برس تک دعا مانگی لیکن قبول نہیں ہوئی۔ اس سے پہلے اُنہوں نے چالیس برس تک حضرت یوسف علیہ السلام کے ملنے کی دعا مانگی تھی جو چالیس سال کے بعد قبول ہوئی۔ آج ہماری دعا چھ مہینہ بھی قبول نہ ہو تو ہم نا اُمیدہوجاتے ہیں، چھ مہینہ تو بڑی چیز ہے، ہم تو رات کو دعا مانگتے ہیں اور صبح دیکھتے ہیں کہ وہ دعا قبول ہوئی کہ نہیں۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ ایک سیدھے سادے سے مجذوب تھے۔ کسی نے ان سے کہا کہ مجھے سخت کھانسی نزلہ ہے، دُعا کردیجیے کہ میں اچھا ہوجاؤں۔ رات کو دعا مانگی، صبح ان سے پوچھنے گئے کہ میری دعا قبول ہوئی کہ نہیں؟ حضرت یعقوب علیہ السلام کے واقعے سے سبق ملتا ہے کہ دعا مانگتے رہو، جلد بازی نہ کرو، نبیوں کے طریقے پر رہو، کوئی پروا مت کرو، دُعا فائدے سے خالی نہیں۔ اگر قبولیت میں دیر معلوم ہو تو دُعا توقبول ہوجاتی ہے، لیکن کبھی اس کا ظہور دیر سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو محبوب رکھتے ہیں اس سے چاہتے ہیں کہ کچھ دن اور دعا مانگ لے، کچھ دن تک اور میری چوکھٹ پر پڑا رہے، قبول تو فوراً کرلیتے ہیں ظہور دیر سے کرتے ہیں، تاکہ بندہ کچھ دن گڑ گڑاتا رہے، میرا اپنا بندہ ہے، مجھے پکارتا رہے، مجھے اس کا یہ پکارنا اچھا لگتا ہے، ورنہ اگر جلد قبول کرلوں گا تو بھاگ جائے گا۔ خواجہ صاحب رحمۃاللہ علیہ کا شعر ہے ؎