عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
سسرالی رشتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عطف کیا ہے، معطوف علیہ معطوف حکم میں ایک ہوتے ہیں جیسے جَاءَ زَیْدٌ وَّ خَالِدٌ ، زید بھی آیا خالد بھی آیا تو آنے میں دونوں شریک ہیں۔ اس آیت کے ذیل میں ملّا علی قاری بھی وہی فرماتے ہیں جو علامہ آلوسی نے فرمایا کہ جتنا حق تمام خون کے رشتوں کا ہے اتنا ہی سسرال والوں کا ہے، ان سے ذرا ذرا سی بات پر لڑنا جائز نہیں، حرام ہے، گناہِ کبیرہ ہے۔ اس لیے اگر بیٹا اپنی بیوی کو لے کر عید، بقرہ عید کو یا کسی اور دن ساس سسر کا حق ادا کرنے جاتا ہے تو ماں کو یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ اچھا تو جورو کا غلام بن گیا! باپ کو یہ کہنا جائز نہیں کہ اچھا تم بیوی کے قُلی بن گئے! یہ کیا جہالت کی بات ہے؟ یہ جاہلیت چلی آرہی ہے۔ دوستو! بہت ہی جہالت، علم کی کمی اور بے رحمی کی بات ہے، بلکہ آپ کو تو مُبارک بادی پیش کرنا چاہیے کہ جاؤ، ساس سُسر کا بھی حق ادا کرو، ان کا بھی حق ہے۔ پندرہ سال پال کر اپنی بیٹی دیتے ہیں، کیا ماں باپ سے ملنا اس کا حق نہیں ہے؟ تم اپنی بیٹی دیتے ہو تو کیا پسند کرتے ہو کہ اس کے ساس سسر بھی تم سے نہ ملنے دیں، لیکن دوسرے کی بیٹی پر ڈنڈا شاہی اور نوکر شاہی چلانا چاہتے ہو۔ تو میں یہ عرض کررہا ہوں کہ اس معاملے میں آج کل والدین بہت زیادتی کررہے ہیں۔ بیٹا بے چارہ دیندار، اللہ والا اگر بیوی کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آتا ہے تو امّاں ناراض ، بے چارہ بے قصور ہے، پھر بھی اماں کے پیر پکڑ کر کہہ رہا ہے کہ امّاں معاف کردو۔ اماں ہیں کہ بپھر رہی ہیں کہ نہیں! ہم نہیں مُعاف کریں گے، بس ہمارے جنازے میں بھی شریک نہ ہونا۔ ارے! جہالت کی پوٹلیو! ذرا اللہ سے ڈرو۔ اگر تم معاف نہیں کروگی تو خدا بھی قیامت کے دن تمہیں معاف نہیں کرے گا تب پتا چلے گا۔ عُلماء لکھتے ہیں کہ جوزمین پر اللہ کے بندوں کی خطائیں معاف کرتا ہے، قیامت کے دن اللہ اس کی خطائیں معاف کردے گا۔ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی صلہ رحمی کا واقعہ اللہ تعالیٰ تو قرآنِ پاک میں فرماتے ہیں: اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللہُ لَکُمۡ 10؎ _____________________________________________ 10؎النور:22