عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ باندھ دے تو بندھے رہو، سر ِتسلیم خم کردو اور جب کھول دیں توا ب ذراا ُچھل کود بھی دکھاؤ کہ یا اللہ! تیرا شکر ہے کہ آج آپ نے رسّی کھول دی۔ مالک کی مرضی کوسمجھنا یہ ہے عبدیت۔ جب تک اللہ والوں کی صحبت نصیب نہ ہو انسان میں صحیح بندگی، تو ازن و اعتدال قائم رہنا ناممکن ہے۔ مثال کے طور پر کسی انسان سے غلطی ہوگئی تو اللہ والوں کے بغیر اس کا احساس اور تلافی اور رجوع کی توفیق مشکل ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃاللہ علیہ نے اپنے نوکر کو ڈانٹا جو کُتب خانہ یحیٰویّہ میں کام کرتا تھا۔ اپنے والد حضرت مولانا یحییٰ صاحب رحمۃاللہ علیہ کے نام پر کُتب خانے کا نام رکھا تھا۔ نوکر نے کہا حضرت جی! معاف کردو۔ شیخ نے فرمایا کہ اس خطا کو تم نے ایک دو دفعہ نہیں ایک درجن مرتبہ کیا ہے، میں معاف کرتے کرتے تھک گیا۔ ظالم! میں تجھے کتنا بھگتوں؟ بس یہ سننا تھا کہ شیخ کے سگے چچا تبلیغی جماعت کے بانی حضرت الیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ پاس بیٹھےتھے جو اکابراولیاء اللہ میں سے ہیں، جن کے اخلاص کا درد آج سارے عالم میں پھیل رہا ہے۔ دین کا ہر شعبہ اہم ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ خانقاہوں سے کیا ہوتا ہے؟ یہ خانقاہ کا ہی فیض تھا، مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمۃاللہ علیہ کی دعاؤں کے صدقے میں مولانا الیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ میں دردِ دل اور اخلاص پیدا ہوا۔ میں پوچھتا ہوں کہ تبلیغی جماعت کا کام ایسے عالم سے کیوں نہیں ہوا جس نے کبھی خانقاہ نہیں دیکھی؟ جس نے کبھی اللہ والوں کی جوتیاں نہیں اُٹھائیں؟ ذرا اس کو سوچو تو سہی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مدرسے بھی بے کار ہیں۔ دوستو! مولانا الیاس صاحب عالم تھے یا جاہل تھے؟ پس جب وہ عالم تھے تو مدرسوں کا وجود ثابت ہوگیا، ثابت ہی نہیں نہایت ضروری! اور اُنہوں نے کسی بزرگ سے اصلاحِ نفس کے لیے تعلق قائم کیا تھا؟ مولانا خلیل احمدصاحب سہارن پوری رحمۃاللہ علیہ سے بیعت تھے، جن کے بارے میں مو لانا گنگوہی رحمۃاللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے خلیل کو نسبتِ صحابہ حاصل ہے۔ اللہ اکبر! میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃاللہ علیہ نے یہ بات سنائی۔ چوں کہ میرے شیخ مولانا گنگوہی کے شاگرد کے شاگرد تھے یعنی بخاری کی نسبت سے میرے شیخ اور مولانا گنگوہی