عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
سے اللہ والے نہیں بنو گے جب تک اللہ کے بندوں پر رحم کرنا نہ سیکھو۔ غصے کا خنّاس نکالو۔ حدیثِ پاک میں آتا ہے: مَنْ کَفَّ غَضَبَہٗ کَفَّ اللہُ عَنْہُ عَذَابَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ 12؎جو اپنے غصے کو رو کے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا عذاب اس سے روک لے گا۔ اب جن کو بہت غصہ آتا ہے ذرا وہ اپنا مزاج درست کرلیں۔ کیسے؟ اپنے غصے کو روکیں، مزاج کو رحم دل بنائیں، تاکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے ساتھ معاملہ ویسے ہی فرمائیں۔ بعض کہتے ہیں کہ صاحب کیسے برداشت کریں؟ جھنجھلاہٹ آجاتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اس شخص کو ایک ڈنڈا لگاؤں۔ جو جھنجھلاہٹ جھنجھلاہٹ کرتا ہے یہ سب بہانے کی باتیں ہیں۔ خود سوچو کہ بے جا غصہ کرنا بڑے عیب کی بات ہے اور حلیم الطبع ہونا بہت بڑی خوبی ہے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان میں فرماتے ہیں: اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَحَلِیۡمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیۡبٌ 13؎جس کا ترجمہ حکیم الامت نے یہ کیا ہے کہ واقعی ابراہیم علیہ السلام بڑے حلیم الطبع رحیم المزاج، رقیق القلب تھے یعنی طبیعت کے بڑے حلیم تھے، مزاج کے رحمت والے تھے اور دل کے نرم تھے۔ یہ ہیں صفات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کی بیان فرمائیں۔ پس اے دوستو! اگر تم اللہ کے خلیل بننا چاہتے ہو اور میری ماؤں بہنو! تم اگر اللہ کی ولیّہ ، اللہ کی دوست بننا چاہتی ہو تو یہ تین صفتیں اپنے اندر پیدا کرو۔ دل میں برداشت کی طاقت ہو، مزاج میں شانِ رحمت غالب ہو اور تمہارا دل نرم ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رحم دلی کا واقعہ دیکھو!حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک بکری جب ریوڑ سے بھاگ گئی، تو کیا واقعہ ہوا؟یہ واقعہ میں کسی اردو ڈائجسٹ سے بیان نہیں کررہا ہوں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی _____________________________________________ 12؎مشکوٰۃالمصابیح: 434، باب الغضب والکبر ، المکتبۃ القدیمیۃ 13؎ھود:75