Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

491 - 540
کلہ١  وہو قول أب حنیفة ومحمد. ٢ وقال أبو یوسف ذا دفع الحاضر الثمن کلہ لم یقبض لا نصیبہ وکان متطوعا بما أدی عن صاحبہ لأنہ قضی دین غیرہ بغیر أمرہ فلا یرجع علیہ وہو أجنب عن نصیب صاحبہ فلا یقبضہ.٣  ولہما أنہ مضطر فیہ لأنہ لا یمکنہ الانتفاع بنصیبہ لا بأداء جمیع الثمن لأن البیع صفقة واحدة ولہ حق الحبس ما بق شیء منہ ٤ والمضطر یرجع 

کے حکم کے بغیر اس کے حصے کی رقم ادا کردی تویہ تبرع اور احسان ہوگا ، اس لئے نہ ساتھی کے حصے پر قبضہ کر سکتا ہے ، اور نہ اپنی رقم کو وصول کرنے کے لئے اس کا حصہ روک سکتا ہے۔ 
اصول : امام ابو حنیفہ  اور امام محمد  کا اصول ۔ مجبوری کی وجہ سے اس کے حکم کے بغیر رقم ادا کی ہے ، اس لئے ساتھی کے حصے پر قبضہ بھی کر سکتا ہے ، اور اپنی ادا کی ہوئی رقم وصول کرنے کے لئے اس کا حصہ روک بھی سکتا ہے ، یہ تبرع نہیں ہے ۔ 
 تشریح  : مثلا زید نے اور عمر نے ایک ہزار میں ایک غلام خریدا، اور عمر غائب ہوگیا تو حاضر زید کے لئے جائز ہے کہ عمر کا حصہ بھی بائع کو ادا کردے اور پورے غلام پر قبضہ کرلے ، اور جب عمر آئے تو اس سے اس کے حصے کی قیمت وصول کرے تب غلام اس کو دے ، یہ امام ابو حنیفہ  اور امام محمد  کی رائے ہے ،کیونکہ زید نے مجبوری کے درجے میں عمر کے حصے کی رقم ادا کی ہے، یہ تبرع اور احسان نہیں ہے ۔ باقی دلیل آگے آرہی ہے ۔
ترجمہ  : ٢  امام ابو یوسف  نے فرمایا کہ اگر حاضر آدمی نے پورا ثمن دے دیا تو بھی صرف اپنے ہی حصے پر قبضہ کرے گااور ساتھی کی جانب سے جو کچھ ادا کیا اس میں تبرع اور احسان کیا، اس لئے کہ دوسرے کا قرض بغیر اس کے حکم کے ادا کیا ہے ، اس لئے اس سے وصول نہیں کرے گا ، اور یہ ساتھی کے حصے کے بارے میں اجنبی ہے اس لئے اس پر قبضہ بھی نہیں کرے گا ۔ 
تشریح  :  امام ابو یوسف  کے نزدیک حاضر آدمی اپنے شریک کے حصے میں اجنبی کی طرح ہے ، اور چونکہ بغیر اس کے حکم کے اس کے حصے کی رقم ادا کی ہے اس لئے یہ تبرع اور احسان ہے اس لئے اس کے حصے پر نہ قبضہ کرسکتا ہے ، اور نہ اپنی رقم وصول کرنے کے لئے اس کے حصے کوروک سکتا ہے ، بس اپنی باری میں غلام سے خدمت لے ۔
ترجمہ  : ٣  امام ابو حنیفہ  اور امام محمد  کی دلیل یہ ہے کہ حاضر آدمی ساتھی کی رقم ادا کرنے میں مجبور ہے اس لئے کہ ساتھی کے حصے کا ثمن ادا کئے بغیر اپنے حصے سے بھی نفع حاصل نہیں کرسکتا ، اس لئے کہ بیع میں ایک ہی صفقہ ہے ،اور حاضر آدمی کو حق ہے کہ غائب کے حصے کو روک لے جب تک کہ اس کا پورا ثمن ادا نہ ہوجائے ۔
تشریح  : طرفین  کی دلیل یہ ہے کہ زید جو حاضر وہ اپنے ساتھ عمر کے  حصے کی رقم ادا کرنے میں مجبور ہے ، کیونکہ اس کو دئے بغیر اپنے حصے سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتاہے ، جب تک پورا ثمن وصول نہیں کرلے گا بائع غلام سے فائدہ اٹھانے نہیں دے گا ، 

Flag Counter