Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 8

394 - 540
اللہ. لہما الاعتبار بالمستأمن منہم ف دارنا.٢  ولنا قولہ علیہ الصلاة والسلام لا ربا بین المسلم والحرب ف دار الحرب ولأن مالہم مباح ف دارہم فبأ طریق أخذہ المسلم أخذ مالا مباحا ذا لم یکن فیہ غدر٣  بخلاف المستأمن منہم لأن مالہ صار محظورا بعقد الأمان

 نوٹ : فتوی امام یوسف کے مسلک پر ہے۔خصوصا دار الامن میں سود لینا بالکل جائز نہیں ہے۔
ترجمہ  : ٢  ہماری دلیل حضور ۖ کا قول ہے، دار الحرب میں مسلمان اور حربی کے درمیان سود نہیں ہے ، اور اس لئے کہ ان کا مال دار الحرب میں مباح ہے ، پس مسلمان جس طریقے سے بھی لے اس نے مباح مال لیا ، بشرطیکہ دھوکہ سے نہ ہو ۔
تشریح  : امام ابو حنیفہ  کی دلیل ایک تو اوپر والی حدیث ہے کہ مسلمان اور حربی کے درمیان دار الحرب میں سود نہیںہے ، دوسری دلیل یہ ہے کہ دار الحرب میں حربیوں کا مال مباح ہے اس لئے مسلمان جس طریقے سے بھی اس کو حاصل کرے وہ مباح ہے بشرطیکہ دھوکہ سے نہ لیا ہو ۔ 
ترجمہ  : ٣   بخلاف وہ ہمارے یہاں امن لیکر آئیں ]تو سود حلال نہیں [ اس لئے کہ امن لینے کی وجہ سے اس کا مال محفوظ ہوگیا ۔ 
تشریح  : یہ امام شافعی  کوجواب ہے ، کہ وہ امن لیکر دار الاسلام آئے تو اس کا مال محفوظ ہوگیا اس لئے ہم اس سے سود نہیں لے سکتے ، لیکن ہم دار الحرب امن لیکر گئے تو اس کا مال ہمارے لئے محفوظ نہیں ہے مباح ہی ہے اس لئے ہم اس سے سود لے سکتے ہیں ، حرام نہیں ہوگا ۔

Flag Counter