بسم اﷲ الرحمن الرحیم
احکام عشر
عشر
لفظ عشر کے اصلی معنی دسواں حصہ ہے مگر حدیث میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے واجبات شرعیہ کی جو تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اس میں عشری زمینوں کی دو قسم قرار دی ہیں ۔ ایک میں عشر یعنی دسواں حصہ پیداوار کا ادا کرنا فرض ہوتا ہے اور دوسری میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ ،لیکن فقہاء کی اصطلاح میں ان دونوں قسموں پر عائد ہونے والی زکوٰۃ کو عشرہی کے عنوان سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔
خلاصہ
یہ کہ زمین کے واجبات دوقسم ہیں عشر وخراج۔ اور ان دونوں کے احکام میں بھی فرق ہے اور اس میں بھی کہ عشر مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے اور خراج ابتداء غیر مسلموں پر، عشر زمین کی پیداوار کی زکوٰۃ اور عبادت ہے ۔
مگر عملی طور پر عشر اور زکوٰۃ اموال میں یہ فرق ہے کہ اموال تجارت اور سونا چاندی وغیرہ اگر سال بھر رکھے رہیں ان میں کسی وجہ سے کوئی نفع نہ ہو بلکہ نقصان بھی ہوجائے مگر سال کے آخر میں مقدار نصاب سے کم نہ ہوں تو بھی ان اموال کی زکوٰۃ ہر سال ادا کرنا فرض ہے ۔ اور عشر میں پیداوار پر صرف ایک دفعہ عشر لازم ہوگا۔
عشر کی فرضیت
عشر کا فرض ہونا قرآن شریف ،حدیث شریف ،اجماع امت اور قیاس مجتہد کے ساتھ ثابت ہے ۔ ذیل میں قرآن وحدیث سے مختصر طریقہ پر عشر کے فرض ہونے کا ثبوت پیش کیاجاتا ہے ۔
قرآن سے ثبوت
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،
یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنْ الْأَرْضِ (سورۃبقرہ)
ترجمہ ۔ اے ایمان والو! خرچ کرو ستھری چیز اپنی کمائی میں سے اور اس چیز میں سے جو ہم نے پیدا کیا تمہارے واسطے زمین سے ۔
یہ ارشاد عشر کے فرض ہونے کی دلیل ہے اور لفظ ’’أَخْرَجْنَا‘‘سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ عشری زمین میں عشر واجب ہے اس آیت کے عموم سے امام ابو حنیفہؒ نے استدلال کیا ہے کہ عشری زمین کی ہر قلیل وکثیر پیداوار پر عشر واجب ہے ۔
سورئہ انعام کی آیت