( اگر کوئی شرعی یا طبعی عذر ہے …تو شوہر کو بتا دے … مثلاً ایام آرہے ہیں… یہ شرعی عذر ہے… یا دوسری جسمانی بیماری ہے …یہ طبعی عذر ہے)…
حضورا نے فرمایا… دنیا میں جب کوئی عورت اپنے شوہر کو ستاتی ہے …تو جو حور جنت میں اس کو ملنے والی ہے …کہتی ہے کہ تیرا ناس ہو… اس کو مت ستا…یہ تو تیرے پاس چند دن کا مہمان ہے
یہ بھی روایت ہے… تین طرح کے آدمی ایسے ہیں …جن کی نہ نماز قبول ہوتی ہے …اور نہ کوئی اور نیکی …ان میں سے ایک وہ عورت ہے… جس کا شوہر اس سے ناخوش ہو ۔
کسی شخص نے حضور ا سے پوچھا … یا رسول اللہ ا سب سے اچھی عورت کو ن ہے؟ … آپ ا نے فرمایا … وہ عورت کہ …اس کا شوہر جب اس کی طرف دیکھے تووہ اس کو خوش کر دے … وہ جب کچھ کہے تو اس کا کہنا مانے …اور اپنی جان و مال میں کچھ اس کے خلاف نہ کرے …
شوہر کا یہ حق ہے کہ… اس کے پاس ہوتے ہوئے بغیر اس کی اجازت کے نفل روزے نہ رکھے … نہ نفل نماز پڑھے …اور ایک حق یہ ہے کہ… شوہر کے سامنے میلی کچیلی … صورت بگاڑ کر نہ رہے… بلکہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے بنائو سنگھار سے رہا کرے( فاسق ، فاجر،بے دین اور کافر عورتوں کی طرح بنائو سنگھار ہر گز جائز نہیں …اس سے احتراز لازم ہے) اور شوہر کا ایک حق یہ بھی ہے کہ … اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر کہیں نہ جائے… نہ رشتے داروں کے گھر… نہ غیر کے گھر۔
(٣) ٹخنے کھلے رکھنا یعنی پاجامہ، شلوار وغیرہ سے ٹخنوں کو نہ ڈھانپانا:
مردوں کو ٹخنے ڈھانپنا حرام اور کبیر گناہ ہے اور عورتوں کے لئے کھلا رکھنا حرام ہے …جبکہ آج معاملہ الٹا ہے …مرد ڈھانپتے ہیں اور عورتیں ''ملا پاجامہ'' کے نام سے شلوار سلوا کر ٹخنے کھلے رکھتی ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے:ما اسفل من الکعبین من الازار فی النار ۔
(بخاری ج٢ ص٨٦١ باب ما اسفل من الکعبین ففی النار)…اِزار سے (پاجامہ،لُنگی، شلوار،کُرتہ،عمامہ ،چادر وغیرہ سے)ٹخنوں کا جو حصہ چھپے گا دوزخ میں جلے گا۔
معلوم ہو ا کہ ٹخنے چھپانا کبیرہ گناہ ہے کیونکہ صغیرہ گناہ پر دوزخ کی وعید نہیں آتی ۔ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے بذل المجھود شرح ابی داؤدمیں لکھا ہے کہ اِزار سے مراد وہ لباس ہے جو اوپر سے آرہا ہے تہبند،لُنگی،شلوار ،پاجامہ،کُرتہ وغیرہ