خواجہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو اپنے اس شعر میں بیان فرمایا ہے ۔
نفس کا ا ژدھا دلا دیکھ ابھی مرا نہیں غافل ادھر ہوا نہیں اسنے ادھر ڈسا نہیں
اورجن لوگوں نے اسبابِ گناہ سے دوری اختیار کی… وہ بحمدللہ تعالیٰ محفوظ رہے …بلکہ دوسروں کے لئے ان کی ہمتیں نمونہ بن گئیں…ذیل میں ایک باہمت بچی اورایک خاتون کا قصہ ملاحظہ ہو۔
(باہمت خواتین کے چند قصے )
ایک لڑکی جس کی عمر تقریباً گیارہ سال تھی …نے والدین سے کہا …میری عمر گیارہ سال ہوگئی …اب میں چچا زاد ،پھوپھی زاد، خالہ زاد اور ماموں زاد وغیرہ سارے نامحرم رشتہ داروں سے پردہ کروں گی …والدین نے کہا…بیٹی…یہ سارے ناراض ہو جائیں گے …بیٹی بولی میرے ابو میری امی …سنئے
سارا جہاں ناراض ہو پروا نہ چاہیے
پیشِ نظر تو مرضی جانانہ چاہئے بس اس نظر سے دیکھ کر تو کر یہ فیصلہ
کیا کیا تو کرنا چاہئے کیا کیا نہ چاہئے
ابو …امی …کوئی خوش ہے… کوئی ناراض ہے…دیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خوش ہیں یا نہیں…کوئی ناراض ہوتا ہے … ہونے دو… بس ہم وہی کریں گے… جس سے ہمارا خالق راضی اور خوش ہو۔
کوئی مرتا رہا کوئی جیتا رہا عشقِ اپنا کام کرتا ہی رہا
پھر کہنے لگی سنئے …میرے پیارے ابو…امی…
اک تو نہیں میر ا تو کوئی شی نہیں میری
جو تو میرا تو سب میرا فلک میری زمیں میری
اگر اللہ تعالیٰ خوش ہو جائیں اور ہمیں مل جائیں …تو سب کچھ مل گیا… اگر وہ ناراض ہوئے تو کچھ بھی ہمارا نہیں ہے۔
فائدہ: دیکھئے! …عمر گیارہ سال…لیکن ہمت کتنی بلند…پورے معاشرے کو للکار رہی ہے …ماحول