لوگوں سے پوشیدہ طور پر کہنے کا ہے)آپ ا نے فرمایا فلانے کی ماں! تم جس کوچے کو (لوگوں کی نظروں سے محفوظ سمجھو) دیکھ لو (میں تمھارے ساتھ وہاں چلنے کو تیار ہوں )تمھارا جو کام ہوگا وہ میں ضرور کروں گا(یعنی تم جس تنہا مقام پر مجھ سے بات کرنا چاہو چلو میں وہاں چل کر تمھاری بات سن لوں گا)چنانچہ آپ ااس کے ساتھ ایک کوچے میں تشریف لے گئے وہاں تنہائی میں اس عورت کو جو کچھ کہنا سننا تھا اس نے سنایا۔
عن انس ص ۔قال کانت امة من اماء اھل المدینة تا خذ بید رسول اللہ ا فتنطلق بہ حیث شاء ت (رواہ البخاری،مشکوة صفحہ ٥١٩)
حضرت انس صفرماتے ہیں کہ مدینہ والوں کی لونڈیوں میں اس ایک لونڈی کا یہ معاملہ تھا کہ(جب اسکو کوئی پریشانی لاحق ہوتی) رسول کریم ا کا ہاتھ پکڑتی اور جہاں جی چاہتا آپ اکو لے جاتی۔
الحاصل: حضرت انس ص فرماتے ہیں کہ یہ ایک عورت کی بات نہیںبلکہ کوئی لونڈی اور باندی من اٰماء اھل المدینة اہل ِ مدینہ میں سے…وہ آتی اور آپ ا کو ہاتھ سے پکڑ کر جہاں چاہتی(اپنی بات سنانے کے لیے)لے جاتی۔
گویا آپ اکی طرف سے یہ اعلان تھا کہ مدینے کی کوئی کالی کلوٹی …کوئی باندی … لونڈی ہو… اور اسکو محمد ا سے کوئی کام ہو …جس گلی میں چاہے… محمد ا کوروک لے اور اپنی حاجت کی بات سنادے ۔
کس کے ہم امتی ہیں ؟ہم امتی کس کے ہیں ؟آپ ا اتنے کریم تھے… پھر فرمایا '' سھلٍ'' جنتی آدمی جو جہنم پر حرام ہے وہ'' سھلٍ ''کی صفت سے متصف ہوتا ہے …یعنی اس سے اپنی حاجت پوراکرنا آسان ہوتا ہے …مشکل نہیں ہوتا… اپنی حاجت براری آسانی سے