فاتحہ چوری ہوگئی
ایک ایس پی صاحب جو حضرت حکیم الامت تھانوی سے بیعت تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں سہارن پور میں تھانیدار تھا تو ایک آدمی نے آ کر رپٹ لکھوائی کہ صاحب میری فاتحہ چوری ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا میں بہت گھبرایا کہ فاتحہ کیسے چوری ہوتی ہے۔ پوچھا کہ کس شکل کی تھی۔ اس نے کہا کہ بانس کی نلکی کی شکل کی تھی۔ پیر صاحب اس میں پڑھ کر پھونک گئے تھے کہ سال بھر تم کھانے پر چھڑک دیا کرو تو فاتحہ ہوجایا کرے گی۔ میری فاتحہ کوئی چرا کر لے گیا۔ بتائیے! ان پیروں نے کس قدر چکر دیا ہے، دین تو آسان ہے، اتنا آسان ہے کہ ثواب پہنچانے میں کسی مولوی کی ضرورت نہیں ہے۔
ایصالِ ثواب کے متعلق ایک ضروری اصلاح
دوسرے یہ کہ ثواب کے لیے کھانا دینا ضروری نہیں، بلکہ کھانے سے زیادہ نقد میں ثواب ہے۔ دیکھو! غریبوں کو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، بارش میں ان کا گھر ٹپک رہا ہے، تو آپ کی بریانی سے اُن کی چھت ٹھیک نہیں ہوجائے گی،لہٰذا سو روپیہ جو کھانے میں خرچ کرتے ہو وہ اس کو نقد دے دو تاکہ اپنا گھر بنالے۔ ایک آدمی سردی سے کانپ رہا ہے، آپ نے اس کو بریانی پکاکر دے دی، اس کو تو لحاف چاہیے، لہٰذا اس کو لحاف دے کر اللہ سے کہہ دو کہ یااللہ! اسے قبول فرماکر اس کا ثواب بڑے پیر صاحب شاہ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو عطا فرما۔ بڑے پیر صاحب کو ثواب پہنچانے کے لیے بریانی دینا ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح کسی غریب کو پیچش لگی ہوئی ہے، علاج کے لیے پیسے نہیں ہیں، تھوڑی تھوڑی دیر میں لوٹا لے کر دوڑ رہا ہے، آپ نے بریانی لاکر دے دی کہ بڑے پیر صاحب کی فاتحہ ہے، تو بریانی کھاکر اس کے دست اور بڑھیں گے یا نہیں؟ لہٰذا اس کو نقد دے دو کہ جاؤ دوا خریدلو اور اس صدقے کا ثواب اب بڑے پیر صاحب کو پہنچادو یا جس کو چاہو پہنچادو مثلاً اپنے ماں باپ، دادادادی، نانا نانی کو پہنچادو۔ دین تو آسان ہے، ایصالِ ثواب کے لیے نہ کسی پیر کو بُلانے کی ضرورت نہ کسی مولوی کو بُلاکر اس سے فاتحہ پڑھوانے کی ضرورت۔ بس اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی سمجھ، عقلِ سلیم، فہمِ سلیم عطا فرمائے۔