سوچا کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست سیکھا ہے، لہٰذا وہی التحیات میں آپ سے سیکھ لوں جو آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہے۔ فرمایا کہ صرف یہی مقصد تھا؟ کہا کہ صرف یہی مقصد تھا، صرف اسی مقصد سے آیا ہوں۔ امیرالمؤمنین سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مدینے والوں کو بلایا اور فرمایا: اگر جنتی دیکھنا ہو تو اس شخص کو دیکھ لو۔
موت کی تیاری کا وقت
آج ہمارا کیا حال ہے کہ ہم اپنے کھانے پینے اور ہگنے موتنے میں مشغول ہیں، رات کو کھالیا، صبح پیشاب پاخانہ نکال دیا، کھایا کمایا سوگئے، صبح اُٹھے شام ہوئی، شام سوئے صبح ہوئی عمر یوں ہی تمام کرتے چلے جارہے ہیں۔ ایک دن معلوم ہوا کہ عزرائیل علیہ السلام نے گلا دبادیا اور معاملہ ختم ہوگیا،لہٰذا پھر پچھتانے سے کیا ہوگا؟ قبر میں نہ نماز پڑھ سکوگے، نہ روزے رکھ سکوگے۔ زمین کے نیچے کے لیے زمین کے اوپر ہی کام کرنا ہے، نیچے جانے کے بعد پھر کوئی کام نہ کرسکوگے، لہٰذا اس کا خیال رکھو کہ دین بن جائے، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ تئیس سال میں دین آیا ہے۔ دس منٹ میں آپ کو سارا دین کیسے سکھا سکتا ہوں؟ لیکن دین سیکھنے کے لیے ہدایت کررہا ہوں کہ اپنی آخرت کی فکر کرو۔
دونوں جہاں میں آرام سے رہنے کا طریقہ
آخرت اور دنیا کا ایسا تعلق ہے کہ جس کی آخرت برباد ہوتی ہے اس کی دنیا بھی برباد ہوتی ہے، جو اپنے مالک کو ناراض کرتا ہے وہ پردیس میں بھی آرام سے نہیں رہتا اور وطن میں بھی آرام سے نہیں رہتا۔ جیسے کوئی اپنے ابّا کو ناراض کردے تو پردیس میں ابّا اس کا خیال نہیں کرتا اور وطن میں بھی ڈنڈے لگاتا ہے، اور ابا خوش ہے تو کہے گا کہ بیٹا پردیس جارہا ہے اس کو خوب پیسہ اور ڈالر دے دو تاکہ وہاں آرام سے رہے، اور وطن میں اور زیادہ اس کی فکر رکھتا ہے کہ جب میرا بیٹا آئے گا تو اِدھر آرام سے رہے گا۔ اسی طرح جو اپنے ربّا یعنی اللہ تعالیٰ کو خوش رکھتا ہے تو اللہ اُس کو دنیا میں بھی آرام سے رکھتا ہے اور آخرت میں بھی، پردیس میں بھی اس کے لیے راحت کا انتظام ہے اور وطن میں تو ہے ہی راحت۔ ابّا کی محبت تو مخلوق ہے، پھر خالق کی محبت کا کیا کہنا! اُس کا تو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ بس وہ بندہ بہت مبارک ہےجو اپنے مالک کو خوش