ثابت ہوگیا کہ یہ دین نہیں ہوسکتا اور نیاز کا جو طریقہ ایجاد کیا وہ بھی خود ساختہ ہے کیوں کہ ثواب پہنچانے کے لیے نہ کھانے پر پڑھنا ضروری ہے، نہ لوبان سلگانا ضروری،نہ اگر بتی جلانا ضروری۔ دین تو آسان ہے۔ قرآن شریف کی تلاوت کرو، اس کا ثواب الگ بخش دو، غریبوں کو روپیہ پیسہ دو، کپڑا دو، دوا دو،اس کا ثواب الگ بخش دو۔ کسی غریب مقروض کا قرضہ ادا کردیا اس کا ثواب الگ اپنے مُردوں کو بخش دو، مسجد مدرسہ میں پیسہ دیا اس کا ثواب الگ پہنچادو۔ اپنی طرف سے قید کیوں لگاتے ہو کہ کھانے پر بغیر پڑھے ثواب نہیں پہنچے گا یا گیارہویں کو ہی صدقہ کرو کسی اور تاریخ میں قبول نہیں ہوگا لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ۔ میں بتاتا ہوں کہ یہ قیدیں سب پیٹ کی وجہ سے ہیں۔ پیٹو پیروں نے سوچا کہ اگر ہم عوام کو بتادیں گے کہ ایصالِ ثواب تم خود کرسکتے ہو تو ہم کو کون پوچھے گا، لہٰذا پیٹو مولویوں اور پیٹو پیروں نے اس کو لازم کردیا کہ بغیر پڑھے ہوئے ثواب نہیں پہنچے گا۔ لہٰذا اب ان کو بلاؤ۔ بغیر میرے فاتحہ نہیں ہوسکتا۔لہٰذا کھانا سامنے رکھ کر پڑھ رہے ہیں۔ اس میں یہ تأثر دینا ہوتا ہے کہ بغیر ہمارے اتنا پڑھے ہوئے کھانا نہیں پہنچ سکتا،لہٰذا جب اتنا پڑھا ہے تو مولوی کو بھی پلیٹ بھرکر بریانی قورمہ دو، یہ بے چاری سیدھی سادی اُمت برباد ہوگئی۔
ایک پیٹو مولوی کی مُردوں سے لڑائی
ایک گاؤں میں ایک مولوی صاحب فاتحہ دلایا کرتے تھے۔ ان کی مرضی کے بغیر دوسرے مولوی صاحب نے ایک دن فاتحہ دلادی تو جب اُس مولوی کو پتا چلا کہ فلاں مولوی صاحب نے آکر ثواب پہنچادیا ہے،تو اُس نے مسجد میں رات بھر لاٹھی گھمائی، لاٹھی مار مار کرمسجد میں وہ شور و غل مچادیا سب لوگ دوڑے کہ کیا بات ہے۔ کہا کہ دیکھو تم نے ایک اجنبی آدمی سے ثواب پہنچوادیا۔پتا نہیں!اس نے کہاں بھیج دیا۔ اس کو مُردوں سے واقفیت نہیں تھی،میں تمہارا پُرانا آدمی ہوں، تمہارے مُردوں سے میری سلام دعا ہے، میں ان ہی کو ٹھیک ٹھیک پہنچاتا تھا،آج ان کو ثواب نہیں ملا، وہ سب مجھ سے لڑرہے ہیں، مجھ پر انہوں نے حملہ کردیا، میں لاٹھی سے مار کر اپنی جان بچارہا ہوں، رات بھر مُردوں سے لڑائی ہوئی ہے۔ دیہاتیوں کے پاس علم تو ہوتا نہیں،بے چارے سیدھے سادے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا بھائی! آیندہ اب آپ ہی سے فاتحہ پڑھوائیں گے۔