جتنا چاہو کرو اور جب چاہو کرو۔ کھانا پکاکر غریبوں کو کھلادو، مگر کھانے پر پڑھنے کا کہیں ثبوت نہیں۔ اپنی طرف سے یہ رسم بنالینا کہ جب تک کھانے پر پڑھا نہیں جائے گا اس وقت تک ثواب نہیں پہنچے گا، بالکل غلط ہے۔ دین میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا کیسے جائز ہوگا۔ غریبوں کو کھانا کھلانے کا ثواب الگ ہے، قرآن شریف کی تلاوت کا ثواب الگ ہے۔ اچھا اگر غریب کو دس روپے کا نوٹ دینا ہے تو اس پر کیوں نہیں پڑھتے؟ کسی کو پیچش لگی ہوئی ہے اس کو دوا دیتے ہو تو دوا پر کیوں نہیں پڑھتے؟ کوئی غریب سردی میں کانپ رہا ہے اس کو لحاف دیتے ہو تو لحاف پر کیوں نہیں پڑھتے ؟لہٰذا کھانا ہو، کپڑا ہو، روپیہ ہو جو چیز بھی صدقہ کرو اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ غریب کو دے کر اللہ تعالیٰ سے کہہ دو کہ یااللہ! اس کا ثواب میرے باپ، دادا کو، بڑے پیر صاحب، سارے اولیاء اللہ کو بخش دیجیے۔ تم کو ایصالِ ثواب سے کون منع کرتا ہے۔ خواہ مخواہ میں تم کو یہ جاہل کہہ رہے ہیں کہ یہ ایصالِ ثواب کے قائل نہیں ہیں، بھئی! ہم تم سے زیادہ قائل ہیں،کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ ہم اپنے بزرگوں کو اور ماں باپ کو ثواب نہ پہنچاتے ہوں۔ ہمارے یہاں تعلیم یہ ہے کہ روزانہ اپنے ماں باپ کو ثواب پہنچاؤ۔ ثواب پہنچانے کا لفظ تو ہے یعنی ایصالِ ثواب تو ہے مگر قرآن و حدیث میں کوئی نیاز و فاتحہ کا لفظ دکھادے۔
فاتحہ اور نذر و نیاز کی حقیقت
نیا زو فاتحہ کا جو طریقہ تم نے ایجاد کیا ہے وہ قرآن و حدیث میں کہیں دکھادو۔ کہیں دکھادو کہ صحابہ نے تمہارے طریقے کے مطابق نیا زو فاتحہ کی تھی۔ یہ نذر و نیاز ایرانی لفظ ہے۔ ہمارا دین ایران میں نازل نہیں ہوا، عرب میں نازل ہوا ہے، لہٰذا یہ نیاز کا لفظ خود بتاتا ہے کہ یہ دین نہیں ہے۔ ایصالِ ثواب کرو اور یہ پوچھو کہ میں بڑے پیر صاحب کو، بزرگانِ دین کو، اولیاء اللہ کو، ماں باپ کو ثواب پہنچانا چاہتا ہوں کس طرح پہنچاؤں؟ اس کا طریقہ یہی ہے کہ صدقہ کرکے نیت کرلو کہ اس کا ثواب ان کو پہنچے لیکن یہ عقیدہ رکھنا کہ ہم ثواب پہنچائیں گے تو بڑے پیر صاحب روزی میں آکر برکت دیں گے اور ہمارا بچہ تندرست ہوجائے گا اور اگر ہم اس سال گیارہویں نہیں کریں گے تو بڑے پیر صاحب ہم کو مار ڈالیں گے سب گمراہی کی باتیں ہیں۔
خیر میں نے عرض کیا کہ نیاز کا لفظ ایرانی ہے اور دین عربی میں نازل ہوا جس سے