Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2012

اكستان

35 - 64
یہ گفتگو سن کر رُستم مرعوب ہوگیا اَور اُس نے لشکر کے سرداروں کو حقیقت تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ سردار طاقت کے نشہ میں چور تھے، اُنہوں نے حضرت ربعی صکے لباس کا مذاق اُڑایا تو رُستم نے جواب دیا کہ اِن کے لباس کو مت دیکھو بلکہ اِن کی رائے کی پختگی، گفتگو کے  اَنداز اَور سیرت وکردار پر نظر ڈالو، عرب لوگ کھانے اَور پہننے میں سادگی اَپناتے ہیں مگر اپنے خاندانی کردار کی بھر پور حفاظت کرتے ہیں  اِلیٰ آخرہ۔ (اَلبدایہ والنہایہ ٤٤٧، ملخصاً، حیاة الصحابہ ٦٩٧٣)
ایک روایت میں ہے کہ اِس واقعہ سے پہلے حضرت سعد بن اَبی وقاص رضی اللہ عنہ نے  کسرٰی یزدجر کو اِسلام کی دعوت دینے کے لیے اُس کے دارُ الخلافہ مدائن میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایک وفد بھیجا تھا، یہ وفد شہر مدائن میں اِس حال میں داخل ہوا کہ اِن کی چادریں اِن کے کندھوں پر پڑی  ہوئی تھیں، ہاتھ میں کوڑے تھے، پیروں میں جوتے تھے اَور سواریاں بہت کمزور تھیں، مدائن کے    لوگ اِنہیں بڑے تعجب سے دیکھتے تھے کہ بھلا یہ فاقہ زدہ فقیر لوگ ہمارے لشکرِ جرار کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں؟ (اَلبدایہ والنہایہ ٤٥٧) 
لیکن تاریخ شاہد ہے کہ یہی سادہ لوگ جب اِیمانی قوت کے ساتھ میدانِ کارزار میں اُترے  تو دُشمن کی لاشوں کے پرے کے پرے لگادیے، صرف جنگ ِقادسیہ میں بیس ہزار کفار مارے گئے اَور خود رُستم بھی اپنی جان نہ بچا سکا اَور اِس کے بعد چند ہی دِنوں میں کسرٰی کی حکومت کا قیامت تک کے لیے نام ونشان مٹ گیا۔ (اَلبدایہ والنہایہ  ٤٨٧)
اِن واقعات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہماری عزت دُنیوی رُسومات، تکلّفات اَور طور طریقوں میں نہیں ہے بلکہ ہمارا اَصل سرمایہ اِسلام ہے، ہم ظاہر میں کیسے ہی ہوں اگر ہمارا رَابطہ اِسلام اَور دین سے مضبوط ہوگاتو ہمیں عزت حاصل رہے گی اَور دین سے رابطہ میںجتنی کمی ہوگی اُتنا ہی ہم عزت سے دُور ہوتے جائیں گے ۔ کاش کہ یہ حقیقت ہمارے دِل کی گہرائیوں میں پیوست ہوجائے۔ (جاری ہے)   

Flag Counter