اِس کے بعد دَلائل سے اِس مسئلہ کو ثابت کرکے لکھتے ہیں :''اگر بالفرض رسول اللہ ۖ نے دائمًا سب سنتیں مسجد ہی میں پڑھیں ہوتیں تاہم بعد اِس کے حضور ۖ ہم سے اِرشاد فرما چکے ''فرضوں کے سوا تمام نمازیں تمہیں گھر میں پڑھنا چاہئیں۔'' اَور فرمایا ماوَرائے فرائض (فرائض کے علاوہ) اَور نمازیں گھر میں پڑھنا مسجد مدینہ طیبہ (مسجد نبوی) میں پڑھنے سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔'' ١
اَلبتہ اِس مقام پر اگر یہ شبہہ پیدا ہو کہ حضور ۖکے زمانہ میں مسجد کے اَندر تعلیم، وعظ اَور مقدمات کے فیصلے وغیرہ ہوتے تھے تو اِس سلسلہ میں عرض ہے کہ یہ سب اُمور فرائض میں سے ہیں چنانچہ دینی تعلیم حاصل کرنا اَور دینی تعلیم دُوسروں کو دینا فرض ہے۔ اِسی طرح وعظ کہنے کا مقصد لوگوں کو اَحکامِ شرعیہ سے مطلع کرنا ہے، یہ بھی فرض ہے۔ نیز حاکم پر فرض ہے کہ لوگوں کے جھگڑوں کا اَور مقدمات کا شریعت کے مطابق فیصلہ کرے جیسے کہ حضور ۖ کو خطاب فرما کر اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں :
فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَ۔ (سُورة المائدہ آیت: ٤٨)
''آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ فرمائیں اُن اَحکام کے ساتھ جو اللہ نے آپ پر اُتارے ہیں۔''
جب فریقین اِس اُصول ''غیر ضروری کام کے لیے اِہتمام کرنا اَور لوگوں کو دعوت دے کربُلا کر اِس کو سر اَنجام دینا شرعاً ناجائز ہے۔'' کو تسلیم کرتے ہیں، پھر نامعلوم بریلوی حضرات یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ ''مروجہ محفلِ میلاد'' ساتویں صدی ہجری کی پیدا شدہ ایک رسم ہے اِس کو فرض و واجب قرار دے کر فرائض سے بھی زیادہ اِس کے لیے اِہتمام کیوں کرتے ہیں؟
١ فتاوٰی رِضویہ جلد سوم ص ٤٧٩