Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی مسائل

ن مضامی

9 - 63
ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق
پنجاب اسمبلی نے گزشتہ دنوں ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی ہے جس میں ربوہ کا نام تبدیل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ قادیانی جماعت کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کے منافی اور ناروا قرار دیا ہے، اور ربوہ کی بعض تاجر تنظیموں نے بھی اس قرارداد پر نکتہ چینی کی ہے۔ نیز عالمی ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ اس قرارداد پر عملدرآمد سے پاکستان میں بنیاد پرست مسلمانوں کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔
ربوہ دریائے چناب کے کنارے ایک نیا آباد ہونے والا شہر ہے جو قیام پاکستان کے بعد قادیانی جماعت نے بسایا ہے۔ تقسیم ہند میں قادیانیوں کا ہیڈکوارٹر ’’قادیان‘‘ بھارت کے ضلع گورداس پور میں رہ گیا تو قادیانی جماعت کی رائل فیملی اور ہزاروں ارکان مشرقی پنجاب سے منتقل ہو کر پاکستان میں شامل ہونے والے مغربی پنجاب میں آگئے۔ اور چنیوٹ کے قریب دریائے چناب کے دوسرے کنارے پر ہزاروں ایکڑ سرکاری اراضی پنجاب کے گورنر سرموڈی کی منظوری سے معمولی رقم کے عوض لیز پر حاصل کر کے اپنا نیا ہیڈکوارٹر بنا لیا اور اسے ربوہ کے نام سے منسوب کیا۔ اس علاقے کا نام ربوہ رکھنے پر ملک کے دینی حلقوں کو مسلسل اعتراض ہے اور انہی کے اعتراض اور مطالبے کے باعث پنجاب اسمبلی نے یہ قرارداد منظور کی ہے۔
اس مطالبے کا پس منظر یہ ہے کہ قادیانی جماعت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے دعویٰ کی بنیاد اس پر رکھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعدد ارشادات میں جس مسیح کی آمد کی پیش گوئی فرمائی ہے اس سے مراد (نعوذ باللہ) مرزا غلام احمد قادیانی ہیں۔ جبکہ اہل اسلام کا اجتماعی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ابھی تک موت وارد نہیں ہوئی، وہ زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے تھے۔ وہ جناب نبی اکرمؐ کے ارشادات کے مطابق قیامت سے قبل دوبارہ نازل ہوں گے اور اسلام کے غلبہ اور خلافت کے قیام میں امام مہدی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی راہ نمائی فرمائیں گے۔ اسی سلسلہ میں نبی اکرمؐ نے حضرت عیسیٰ بن مریمؑ اور حضرت امام مہدیؒ کی دو الگ الگ شخصیتوں کے حوالہ سے اس قدر تفصیل اور صراحت کے ساتھ علامات بیان فرما دی ہیں کہ کوئی طالع آزما اس حوالہ سے باخبر مسلمانوں کو کسی طرح دھوکہ نہیں دے سکتا۔
مگر مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ کر دیا کہ عیسیٰ بن مریمؑ فوت ہو چکے ہیں اور احادیث نبویہ میں جس عیسیٰ بن مریم کے دوبارہ نزول ہونے کا ذکر ہے اس سے مراد وہ خود یعنی مرزا قادیانی ہیں۔ چنانچہ لوگوں نے بہت سے اعتراضات کیے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ احادیث میں ذکر ہے کہ عیسیٰ بن مریمؑ جامع مسجد دمشق کے مینار پر نازل ہوں گے۔ اس پر مرزا غلام احمد قادیانی نے قادیان میں ’’مینارۃ المسیح‘‘ کے نام سے ایک مینار کی تعمیر شروع کر دی اور اس کے لیے ملک کے طول و عرض سے چندہ کیا مگر وہ مینار مرزا قادیانی کی زندگی میں مکمل نہ ہو سکا اور ان کی وفات کے بعد ان کے جانشینوں نے اس کی تکمیل کی۔ اس مینار کی تعمیر کا اصل مقصد یہ تھا کہ بعد میں آنے والے لوگ جو اس کی تعمیر کے وقت اور پس منظر سے آگاہ نہیں ہوں گے کم از کم وہ تو ’’مینارۃ المسیح‘‘ کو دیکھ کر دھوکہ کھائیں گے۔ یہ قادیانی جماعت کا مخصوص طریقۂ واردات ہے کہ اشتباہ اور فریب کو جان بوجھ کر قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس کی آڑ میں سادہ لوح اور بے خبر لوگوں کو شکار کیا جا سکے۔
چنانچہ ربوہ بھی قادیانی جماعت کی اس تکنیک کا شاہکار ہے کیونکہ ’’ربوہ‘‘ کا لفظ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ حضرت مریم علیہا السلام کے حوالہ سے سورۃ المومنین کی آیت 50 میں اس طرح آیا ہے :
’’اور ہم نے عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی ماں کو اپنی قدرت کی نشانی دی اور انہیں ایک ٹیلے (ربوہ) پر رہنے کی جگہ دی جو قرار کی جگہ تھی اور پانی بھی موجود تھا۔‘‘
اب قرآن کریم میں ربوہ کا لفظ حضرت عیسیٰؑ کے حوالہ سے مذکور ہے اور اسے ان کی قرارگاہ قرار دیا گیا ہے جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ ہے کہ وہ خود عیسیٰ بن مریم ہیں۔ اس لیے ربوہ کے آباد ہونے کے وقت اور اس کے پس منظر سے بے خبر جو شخص بھی قرآن کریم میں ربوہ کا لفظ پڑھے گا اور مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ اس کی نظر سے گزرے گا تو وہ دھوکے کا شکار ہوگا۔ اور یہی بے خبری اسے قادیانیوں کے دام ہمرنگ زمین میں پھنسا دے گی۔جیسا کہ اس قرارداد کے محرک مولانا منظور احمد چنیوٹی ایم پی اے نے ایک واقعہ بتایا کہ کچھ عرصہ قبل افریقہ کے کسی ملک کے تبلیغی دورے کے موقع پر ایک جلسہ کے بعد کچھ نوجوان ان سے جھگڑ پڑے کہ وہ ربوہ والوں کے خلاف اس شدت کے ساتھ کیوں بیان کرتے ہیں جبکہ ربوہ کا ذکر تو قرآن کریم میں موجود ہے۔
اس وجہ سے تحریک ختم نبوت کے مطالبات میں یہ بات ہمیشہ شامل رہی ہے کہ ربوہ کا نام تبدیل کر دیا جائے تاکہ قرآن کریم کے حوالہ سے لوگوں کو فریب کا شکار کرنے کا یہ مکروہ عمل ختم ہو سکے۔ اور پنجاب اسمبلی کے رکن مولانا منظور احمد چنیوٹی ایک عرصہ سے اس کے لیے کوشاں رہے ہیں اور انہی کی تحریک پر پنجاب اسمبلی نے یہ قرارداد منظور کی ہے جس پر ملک کے دینی حلقے اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں اور سیکولر لابیوں کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس موقع پر دو گزارشات اس قرارداد کا خیرمقدم کرتے ہوئے ہم پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ جہاں ربوہ کا نام تبدیل کرنے کا اصولی فیصلہ ہوگیا ہے وہاں ربوہ کے باشندوں کو ان کے مکانات کے ملکیتی حقوق دینے کا فیصلہ بھی ہوجانا چاہیے۔ کیونکہ ربوہ کی زمین انجمن احمدیہ کی ملکیت ہے جو لوگوں کو مکان بنانے کے لیے لیز پر دی گئی ہے۔ اور اس دائرے میں رہنے والے کسی بھی رہائشی کو اپنے مکان یا دکان کے مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ صورتحال نظرثانی کی محتاج ہے اور اس کا متعلقہ اداروں کو سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ اور کم و بیش نصف صدی سے رہنے والے رہائشیوں کو ان کے مکانات اور دکانوں کے مالکانہ حقوق دلوانے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ قادیانی جماعت کے ترجمان نے اس قرارداد کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا ہے جو اصل معاملہ کے برعکس بات ہے۔ کیونکہ ایک فریق قرآن کریم کے ایک لفظ کو غلط استعمال کر کے دنیا بھر کے لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے، جبکہ دوسرے فریق نے دھوکہ کی اس فضا کو ختم کرنے کے لیے پیش رفت کرنا چاہی ہے۔ اب انصاف پسند لوگ خود فیصلہ کریں کہ ان میں سے کون سا فریق انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور کون سا فریق انسانی حقوق کی پاسداری میں مصروف ہے۔ بلکہ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو ربوہ کے نام کی تبدیلی انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں بلکہ اس شہر کے باشندوں کو مکانات اور دکانوں کے مالکانہ حقوق دینے کا مسئلہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ اس لیے اگر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اپنے کاز کے ساتھ مخلص اور سنجیدہ ہیں تو ان کی ذمہ داری ہے کہ نام کی تبدیلی پر واویلا کرنے کی بجائے ربوہ کے شہریوں کو مالکانہ حقوق دلوانے کے لیے آگے بڑھیں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۲۴ نومبر ۱۹۹۸ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط 1 1
3 قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟ 2 1
4 مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت 3 1
5 گلگت و ملحقہ علاقوں کی مجوزہ صوبائی حیثیت ۔ صدر پاکستان کے نام عریضہ 4 1
6 لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام 5 1
7 ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں 6 1
8 دستور پاکستان کا حلف اور قادیانی عہدیدار 7 1
9 قبائلی علاقہ جات ۔ نفاذ شریعت کی تجربہ گاہ؟ 8 1
10 ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق 9 1
11 حکمران کی ضرورت اور عوام کی درگت 10 1
12 جرائم شکنی ۔ ہمارا روایتی نظام اور اسلام کا مزاج 11 1
13 وکالت کا مروجہ سسٹم اور اسلامی نظام 12 1
14 سودی نظام کا متبادل 13 1
15 اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے مواقع اور ہمارا قومی مزاج 14 1
16 سودی نظام کا خاتمہ ۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ 15 1
17 عالم اسلام یا پاکستان میں ایک روز عید کے امکانات 16 1
18 رؤیتِ ہلال کیوں، سائنسی حسابات کیوں نہیں؟ 16 1
19 کیا عالم اسلام میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
20 کیا پاکستان میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
21 پاکستان کی سطح پر مرکزیت کی ضرورت 16 1
22 افغان مہاجرین کا مسئلہ 17 1
23 مسئلہ کشمیر ۔ سردار محمد عبد القیوم خان کے خیالات 18 1
24 کارگل کا مشن 18 1
25 خودمختار کشمیر کی تجویز 18 1
26 مسئلہ کشمیر اور سازشیں 18 1
27 جہاد کشمیر اور مجاہدین 18 1
28 چند اہم قومی مسائل اور وزیر داخلہ کی پیش کردہ سفارشات 19 1
30 سرکاری انتظامیہ کا احتساب 19 1
31 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 19 1
32 کسی کو کافر کہنے پر پابندی 19 1
33 مذہبی جلوسوں پر مقررہ اوقات اور روٹس کی پابندی 19 1
34 بسنت کا تہوار اور حکومت پنجاب 20 1
35 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر مشرف کا سیرۃ نبویؐ سے استدلال 21 1
36 سود کی حیثیت رسول اللہؐ کی نظر میں 22 1
37 شخصی اور تجارتی سود 23 1
38 پاکستان میں سودی نظام ۔ تین پہلوؤں سے 24 1
39 (۱) آسمانی مذاہب میں سود کی حرمت 24 1
40 (۲) شخصی و تجارتی سود کا معاملہ 24 1
41 (۳) قیامِ پاکستان کا مقصد اور بانیٔ پاکستان کے ارشادات 24 1
42 سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل 25 1
43 جاہلانہ رسم و رواج اور پیچیدہ نو آبادیاتی نظام 26 1
44 اسلام اور آزادی کا سفر 27 1
45 کال گرلز کا کلچر ! 28 1
46 پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات 29 1
47 قومی نصاب سازی کا معیار اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی چارج شیٹ 30 1
48 ’’میثاق جمہوریت‘‘ 31 1
49 منکرات وفواحش کا فروغ 32 1
50 پاکستانی حکمرانوں اور دانش وروں کے لیے لمحہ فکریہ 33 1
51 مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ 34 1
52 نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت 35 1
53 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام 36 1
54 نظریۂ پاکستان کیا ہے؟ 37 1
55 عربی زبان، ہماری قومی ضرورت 38 1
56 لمحہ فکریہ: 38 55
57 اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ 39 1
58 پاکستان کو ’’سنی ریاست‘‘ قرار دینے کا مطالبہ 40 1
59 مطالبہ نمبر 1: متعلقہ نصاب دینیات 40 58
60 مطالبہ نمبر 2 : متعلقہ ماتمی جلوس شیعہ 40 58
61 مطالبہ نمبر 3 40 58
62 مطالبہ نمبر 4: متعلقہ نشریات ریڈیو و ٹیلی ویژن 40 58
63 مطالبہ نمبر 5 : متعلقہ مسئلہ ختم نبوت 40 58
64 وہی شکستہ سے جام اب بھی! 41 1
65 نیب کا کردار ۔ ایک لمحۂ فکریہ 42 1
66 مسئلہ قومی زبان اردو کا 43 1
67 قیام پاکستان کا بنیادی مقصد 44 1
68 کیا اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم نہیں؟ 45 1
69 اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا حکم 46 1
70 اسلام قبول کرنے والوں کے مسائل 47 1
71 اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کار کی ضرورت 48 1
73 پاکستان میں نفاذ اردو، ہندوستان میں فروغ اردو 49 1
74 نظام مصطفٰیؐ، ایک قومی ضرورت 50 1
75 سودی نظام کا خاتمہ، غیر روایتی اقدامات کی ضرورت 51 1
76 نمازوں کے یکساں اوقات اور رؤیت ہلال کے مسئلے 52 1
77 قرآن کریم کی تعلیم لازم کرنے کا مستحسن حکومتی فیصلہ 53 1
78 ہمارے عدالتی نظام کا ماحول 54 1
79 دستور پاکستان کی بالادستی اور قادیانی ڈھنڈورا 55 1
80 قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب 56 1
81 وطنِ عزیز کے کلیدی مناصب اور مذہبی طبقات کے خدشات 57 1
82 مسئلہ کشمیر اور نوآبادیاتی نظام کی جکڑبندی 58 1
83 سودی نظام اور مذہبی طبقات کی بے بسی 59 1
84 عربی زبان کی تعلیم اور ہمارے قومی ادارے 60 1
85 مولانا زرنبی خان شہیدؒ اور شیخ عبد الستار قادری مرحوم 61 1
86 مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال 62 1
88 مسئلہ رؤیت ہلال پر دو تجاویز 63 1
Flag Counter