Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی مسائل

ن مضامی

28 - 63
کال گرلز کا کلچر !
گوجرانوالہ پولیس نے گزشتہ روز بازار الماریاں کے ایک دکاندار حاجی محمد سرور کو گرفتار کر لیا ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے متعدد کال گرلز کو قتل کیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق حاجی محمد سرور نے چار کال گرلز کے قتل کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے برائی کو مٹانے کے لئے یہ کارروائی کی ہے اور وہ اس پر پوری طرح مطمئن ہے۔ حاجی محمد سرور کا تعلق ایک مذہبی خاندان سے بتایا جاتا ہے،اس کے گھر میں نہ ٹی وی ہے نہ ریڈیو، اور خاندان کی عورتیں پردہ دار ہیں جبکہ خود حاجی سرور کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ وہ فرشتہ سیرت انسان ہے۔
ایک قومی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے حاجی سرور نے بتایا ہے کہ اس کاکسی مذہبی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔ جی ٹی روڈ پر اکثر فاحشہ عورتیں کھڑی ہوکر لوگوں کو کھلے عام دعوت گناہ دیتی تھیں جس پر میں نے اعلیٰ پولیس افسروں کو متعدد خطوط لکھے اور ان سے استدعا کی کہ وہ اس فحاشی کو روکیں مگر پولیس نے کوئی کارروائی نہ کی جس پر میں نے از خود برائی مٹانے کا فیصلہ کر لیا اور اسی جذبہ کے تحت میں نے کال گرلز کو قتل کیا۔ میں نے سنا کہ لاہور میں بھی فحاشی عام ہے، جب میں وہاں بازار حسن گیا تو مجھے کچھ عورتوں نے گاہک سمجھ کر پھنسانے کی کوشش کی تو میں نے تین عورتوں پر فائرنگ کی ۔ میں نے بعد میں اخبارات میں پڑھا کہ ان میں سے ایک مر گئی ہے۔ میں ان کال گرلز کو قتل نہیں کرنا چاہتا تھا اگر انہیں قتل کرنا ہوتا تو ان کے سروں میں گولیاں مارتا، میں صرف پیٹ میں گولیاں مار کر انہیں ناکارہ بنانا چاہتا تھا تاکہ وہ اس مکروہ دھندے سے باز آجائیں مگر تین چار مر گئیں۔ اس پر میں نے چار کال گرلز کے مرنے پر چار ہزار روپے اور چھ زخمی ہونے کے تین ہزار روپے خیرات دی۔ میں وقوعہ کے بعد نفل ادا کرتا تھا اور خدا کے حضور گڑگڑا کی زارو قطار روتا تھا۔
حاجی محمد سرور کی گرفتاری اور اس کی طرف منسوب اس اخباری بیان کی اشاعت کے ساتھ حسب معمول اخبارات میں اس کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں قسم کے رد عمل کا اظہار شروع ہو گیا ہے۔ ایک قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہیومن رائٹس ونگ پی پی پی پنجاب کے صدر سلیمان کھوکھر نے کہا ہے کہ قانون کسی دوسرے شخص کو قتل کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کیونکہ قتل بذات خود ایک بڑا جرم ہے۔ جبکہ پیپلز لائرز فورم گوجرانوالہ کے صدر حاجی جاوید پال نے کہا ہے کہ حاجی سرور برائی مٹانے کی کوشش میں چار قتل کر کے خود ایک بڑا ملزم بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ ہیومن رائٹس کمیشن کے ڈسٹرکٹ کو آرڈی نیٹر سعید اعوان نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ مذکورہ اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاجر برادری کے کچھ حضرات نے اس کی مذمت کی ہے اور بعض نے اسے مجاہدانہ اقدام قرار دیا ہے۔
جہاں تک گوجرانوالہ میں کال گرلز کی ’’بدکاری مہم ‘‘ کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک عرصہ سے موجود ہے اور یہ بھی امر واقعہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے بار بار توجہ دلائے جانے کے باوجود اسے روکنے کے لئے اب تک کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی۔غالباً تین چار سال قبل کی بات ہے کہ مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ کے بعض طلبہ نے مجھے اس طرف توجہ دلائی کہ جی ٹی روڈ پر ایک مخصوص مقام پر شام کے وقت عورتیں کھڑی ہوتی ہیں اور چند رکشے والے پراسرار انداز میں ان کے سامنے رک کر ان سے بات کرتے ہیں اور وہ باری باری ان کے ساتھ بیٹھ کر چلی جاتی ہیں۔ میں نے ان طلبہ سے اس صورت حال پر کچھ دن اور نظر رکھنے کے لیے کہا اور اس وقت کے ڈی آئی جی پولیس کو خود تحریری طور پر اس سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے استدعا کی کہ وہ اس کا سدباب کریں۔ اس کے بعد مدرسہ میں چھٹیاں ہوئیں اور وہ طلبہ چلے گئے۔
البتہ اس دوران شہر کے چند دیگر ذمہ دار حضرات سے گزارش کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس سلسلہ میں ضلعی انتظامیہ کے ذمہ دار حضرات سے بات کر چکے ہیں لیکن انہیں یہ جواب ملا ہے کہ متعلقہ حکام اس حوالہ سے بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ میں نے ایک دوست سے اس ’’بے بسی‘‘ کی وجہ پوچھنا چاہی تو وہ ہنستے ہوئے یہ کہہ کر ٹال گئے کہ’’تہانوں نئیں پتہ؟‘‘ یعنی کیا آپ کو اس کی وجہ معلوم نہیں ؟
گوجرانوالہ میں کال گرلز کی اس ’’بدکاری مہم‘‘ کے خلاف چند روز کی اس رسمی سی تگ و دو کے بعد میں بھی دوسری مصروفیات میں مگن ہو گیا۔آج بازارِ الماریاں کے اس نوجوان دکاندار کی گرفتاری اور اعترافات کے بعد وہ بات پھر سے ذہن میں تازہ ہو گئی ہے اور سچی بات ہے کہ مجھے شرمندگی اور ندامت محسوس ہو رہی ہے کہ حالات کے اس مقام تک پہنچنے میں خود ہماری سستی اور بے توجہی کا بھی خاصا دخل ہے۔مجھ سے بعض اخباری نمائندوں نے اس بارے میں دریافت کیا تو میں نے گزارش کی کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی تو میں حمایت نہیں کرتا اور نہ ہی اسلام اس کی اجازت دیتا ہے لیکن یہ بات ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ یہ برائی کو روکنے میں مروجہ سسٹم کی ناکامی کا رد عمل ہے اور سسٹم کو چلانے والوں کی کوتاہیوں اور نااہلی کی صدائے باز گشت ہے ۔ جسم کے کسی حصے میں گندا مواد جمع ہوجائے اور اسے جسم سے نکالنے کی بجائے تھپتھپاتے رہنے کا طرز عمل اختیار کر لیا جائے تو اس نے کہیں نہ کہیں سے نکلنا تو ہوتا ہے۔وہ نکلنے کا راستہ خود تلاش کر لیتا ہے اور جگہ بھی خود متعین کرتا ہے اس لیے اصل اسباب کی نشاندہی کرنا اور ان کے سد باب کی کوشش کرنا ہی مسئلہ کا صحیح حل ہے۔
زنا، شراب، جوا، حرام خوری، فحاشی اور دیگر معاشرتی جرائم کی روک تھام اسلامی نقطہ نظر سے حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور اس کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر وہ اس کا اہتمام نہیں کرے گی تو وہ اپنے منصبی فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی مرتکب ہوگی۔ جبکہ ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ ملک کا ایک با ضابطہ سفارتی نمائندہ اپنی سفارتی ڈیوٹی کے دوران ’’گرلز فرینڈ‘‘ کے ساتھ سر گرمیوں میں ملوث پایا گیا ہے لیکن اس کو سفارتی نمائندہ بنانے والوں کی پیشانی پر عرق ندامت کا کوئی قطرہ نمودار نہیں ہوا بلکہ حکومتی سطح پر اس کی اس حرکت کا دفاع کیا جارہا ہے۔ ایسی حالت میں اور ایسی حکومت سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کے اندر زنا اور فحاشی کی روک تھا م کے لئے کوئی سنجیدہ کارروائی کرے گی۔اس کے بعد علماء کرام اور سیاسی دینی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اصلاح احوال کے لیے اپنے دائرہ عمل و اختیار میں محنت کریں اور عوامی سطح پر ایسا ماحول قائم کرنے کی کوشش کریں جس میں ان برائیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہو۔علماء کرام اپنے خطبات اور دروس میں انفرادی طور پر ضرور آواز اٹھا رہے ہوں گے مگر سیاسی دینی جماعتوں نے تو متفقہ طور پر یہ طے کر رکھا ہے کہ جب تک ملک کا اقتدار مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں نہیں آجاتا اور ملکی نظام پر ان کی بھر پور گرفت قائم نہیں ہوتی اس سے پہلے اور اس سے نیچے اصلاح احوال کی کوئی کوشش کسی شعبہ میں قطعی طور پر ان کے لئے روا نہیں ہے۔
ان حالات میں حاجی محمد سرور کا نمودار ہونا ایک فطری اور منطقی رد عمل ہے جس کی مذمت کرنے اور اسے کوسنے کی بجائے ہمیں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اس نے خود اپنی جان اور عزت دونوں کو خطرے میں ڈال کر ہماری غفلت اور کوتاہیوں کو بے نقاب کیا ہے اور مروجہ سسٹم کی ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ حاجی محمد سرور اپنے اعتراف کے مطابق چار قتلوں کا مجرم ہے اور اسے قانون ہاتھ میں لینے کی سزا ضرور ملنی چاہئے لیکن اس کے ساتھ وہ مروجہ نظام کی فرسودگی اور ناکامی کا عنوان بن کر سامنے آیا ہے اور حوالات کی سلاخوں کے پیچھے سے اس سسٹم کے ذمہ داروں اور شریک طبقات کا منہ چڑا رہا ہے۔ کیا اس کے اس چیلنج کا سامنا کرنے کا ہم میں سے کسی طبقہ یا شخص میں حوصلہ ہے؟
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۹ جنوری ۲۰۰۳ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط 1 1
3 قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟ 2 1
4 مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت 3 1
5 گلگت و ملحقہ علاقوں کی مجوزہ صوبائی حیثیت ۔ صدر پاکستان کے نام عریضہ 4 1
6 لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام 5 1
7 ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں 6 1
8 دستور پاکستان کا حلف اور قادیانی عہدیدار 7 1
9 قبائلی علاقہ جات ۔ نفاذ شریعت کی تجربہ گاہ؟ 8 1
10 ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق 9 1
11 حکمران کی ضرورت اور عوام کی درگت 10 1
12 جرائم شکنی ۔ ہمارا روایتی نظام اور اسلام کا مزاج 11 1
13 وکالت کا مروجہ سسٹم اور اسلامی نظام 12 1
14 سودی نظام کا متبادل 13 1
15 اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے مواقع اور ہمارا قومی مزاج 14 1
16 سودی نظام کا خاتمہ ۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ 15 1
17 عالم اسلام یا پاکستان میں ایک روز عید کے امکانات 16 1
18 رؤیتِ ہلال کیوں، سائنسی حسابات کیوں نہیں؟ 16 1
19 کیا عالم اسلام میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
20 کیا پاکستان میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
21 پاکستان کی سطح پر مرکزیت کی ضرورت 16 1
22 افغان مہاجرین کا مسئلہ 17 1
23 مسئلہ کشمیر ۔ سردار محمد عبد القیوم خان کے خیالات 18 1
24 کارگل کا مشن 18 1
25 خودمختار کشمیر کی تجویز 18 1
26 مسئلہ کشمیر اور سازشیں 18 1
27 جہاد کشمیر اور مجاہدین 18 1
28 چند اہم قومی مسائل اور وزیر داخلہ کی پیش کردہ سفارشات 19 1
30 سرکاری انتظامیہ کا احتساب 19 1
31 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 19 1
32 کسی کو کافر کہنے پر پابندی 19 1
33 مذہبی جلوسوں پر مقررہ اوقات اور روٹس کی پابندی 19 1
34 بسنت کا تہوار اور حکومت پنجاب 20 1
35 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر مشرف کا سیرۃ نبویؐ سے استدلال 21 1
36 سود کی حیثیت رسول اللہؐ کی نظر میں 22 1
37 شخصی اور تجارتی سود 23 1
38 پاکستان میں سودی نظام ۔ تین پہلوؤں سے 24 1
39 (۱) آسمانی مذاہب میں سود کی حرمت 24 1
40 (۲) شخصی و تجارتی سود کا معاملہ 24 1
41 (۳) قیامِ پاکستان کا مقصد اور بانیٔ پاکستان کے ارشادات 24 1
42 سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل 25 1
43 جاہلانہ رسم و رواج اور پیچیدہ نو آبادیاتی نظام 26 1
44 اسلام اور آزادی کا سفر 27 1
45 کال گرلز کا کلچر ! 28 1
46 پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات 29 1
47 قومی نصاب سازی کا معیار اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی چارج شیٹ 30 1
48 ’’میثاق جمہوریت‘‘ 31 1
49 منکرات وفواحش کا فروغ 32 1
50 پاکستانی حکمرانوں اور دانش وروں کے لیے لمحہ فکریہ 33 1
51 مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ 34 1
52 نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت 35 1
53 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام 36 1
54 نظریۂ پاکستان کیا ہے؟ 37 1
55 عربی زبان، ہماری قومی ضرورت 38 1
56 لمحہ فکریہ: 38 55
57 اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ 39 1
58 پاکستان کو ’’سنی ریاست‘‘ قرار دینے کا مطالبہ 40 1
59 مطالبہ نمبر 1: متعلقہ نصاب دینیات 40 58
60 مطالبہ نمبر 2 : متعلقہ ماتمی جلوس شیعہ 40 58
61 مطالبہ نمبر 3 40 58
62 مطالبہ نمبر 4: متعلقہ نشریات ریڈیو و ٹیلی ویژن 40 58
63 مطالبہ نمبر 5 : متعلقہ مسئلہ ختم نبوت 40 58
64 وہی شکستہ سے جام اب بھی! 41 1
65 نیب کا کردار ۔ ایک لمحۂ فکریہ 42 1
66 مسئلہ قومی زبان اردو کا 43 1
67 قیام پاکستان کا بنیادی مقصد 44 1
68 کیا اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم نہیں؟ 45 1
69 اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا حکم 46 1
70 اسلام قبول کرنے والوں کے مسائل 47 1
71 اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کار کی ضرورت 48 1
73 پاکستان میں نفاذ اردو، ہندوستان میں فروغ اردو 49 1
74 نظام مصطفٰیؐ، ایک قومی ضرورت 50 1
75 سودی نظام کا خاتمہ، غیر روایتی اقدامات کی ضرورت 51 1
76 نمازوں کے یکساں اوقات اور رؤیت ہلال کے مسئلے 52 1
77 قرآن کریم کی تعلیم لازم کرنے کا مستحسن حکومتی فیصلہ 53 1
78 ہمارے عدالتی نظام کا ماحول 54 1
79 دستور پاکستان کی بالادستی اور قادیانی ڈھنڈورا 55 1
80 قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب 56 1
81 وطنِ عزیز کے کلیدی مناصب اور مذہبی طبقات کے خدشات 57 1
82 مسئلہ کشمیر اور نوآبادیاتی نظام کی جکڑبندی 58 1
83 سودی نظام اور مذہبی طبقات کی بے بسی 59 1
84 عربی زبان کی تعلیم اور ہمارے قومی ادارے 60 1
85 مولانا زرنبی خان شہیدؒ اور شیخ عبد الستار قادری مرحوم 61 1
86 مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال 62 1
88 مسئلہ رؤیت ہلال پر دو تجاویز 63 1
Flag Counter