Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی مسائل

ن مضامی

55 - 63
دستور پاکستان کی بالادستی اور قادیانی ڈھنڈورا
7 ستمبر کو ’’یوم تحفظ ختم نبوت‘‘ کے حوالہ سے ملک بھر میں سینکڑوں تقریبات منعقد ہوئیں جن میں تحریک ختم نبوت کے شہداء اور کارکنوں کو خرج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جدوجہد کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ مجھے اس روز دو تقریبات میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ لال مسجد، اسلام آباد میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ختم نبوت کانفرنس صبح نو بجے سے نماز عصر تک جاری رہی، مجھے اس کی ظہر کے بعد والی نشست میں حاضری اور گفتگو کا موقع ملا۔ اس نشست سے دیگر علماء کرام کے علاوہ مولانا محمد امجد خان، مولانا اشرف علی، مولانا عبد الحمید چشتی آف گولڑہ شریف، مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری آف ساہیوال، اور مولانا محمد طیب نے بھی خطاب کیا۔
اسی روز بعد نماز مغرب جامعہ اسلامیہ تعلیم القرآن منڈی بہاؤ الدین میں ’’دفاع اسلام و دفاع پاکستان‘‘ کے عنوان سے تقریب انعقاد پذیر تھی جس میں مولانا مفتی محمد زاہد آف فیصل آباد اور مولانا عبد المجید شہیدی کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ ان دو نشستوں میں جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کل 6 ستمبر کو ہم نے پورے ملک میں ’’یوم دفاع پاکستان‘‘ منایا ہے اور آج 7 ستمبر کو ’’یوم ختم نبوت‘‘ منایا جا رہا ہے۔ وہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت و دفاع کے حوالہ سے تھا اور یہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے جذبہ کے تحت ہے۔ دونوں کا مقصد ملک و قوم کا دفاع ہے کہ زندہ قومیں اپنی جغرافیائی اور نظریاتی دونوں سرحدوں کے دفاع کا اہتمام کرتی ہیں اور یہ حسن اتفاق ہے کہ ہمارے یہ دونوں دن آگے پیچھے اکٹھے آتے ہیں۔ ملک کی جغرافیائی سرحدوں اور وحدت و سا لمیت کا دفاع کرنے اور اس کے لیے مختلف ادوار میں قربانیاں دینے والے بھی ہمارے محسن ہیں، اور عقیدہ و نظریہ کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے والے بھی ہمارے محسن ہیں۔ اس لیے ہم دونوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور دونوں کے لیے بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہیں۔
آج ’’یوم ختم نبوت‘‘ ہے۔ آج کے دن 1974ء میں ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخی فیصلہ کیا تھا اور میں اسی کے بارے میں آج کے معروضی حالات میں مختلف حلقوں کی طرف سے پیش کیے جانے والے تین سوالات کا جائزہ لینا چاہوں گا جو نہ صرف ملک میں سوشل میڈیا اور قومی میڈیا کے ذریعے پھیلائے جا رہے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی بین الاقوامی لابیاں اور خاص طور پر سیکولر حلقے ان کا مسلسل پرچار کر رہے ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ 1974ء میں قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا، کیا کسی فرد یا گروہ کو مسلمان یا کافر قرار دینے کا فیصلہ کرنا اسمبلی کا کام ہوتا ہے؟ اور کیا اسمبلی کو یہ اتھارٹی حاصل تھی؟ میں اس کا مختصر جواب یہ عرض کروں گا کہ 1974ء کی منتخب پارلیمنٹ کے سامنے یہ مسئلہ ’’استفتاء‘‘ کے طور پر پیش نہیں کیا گیا تھا کہ وہ یہ فیصلہ دے کہ قادیانی مسلمان ہیں یا کافر؟ بلکہ اسمبلی کے سامنے ’’دستوری بل‘‘ رکھا گیا تھا کہ قادیانیوں کو پوری ملت اسلامیہ غیر مسلم قرار دے چکی ہے اس لیے پارلیمنٹ بھی دستور و قانون کے دائرے میں اس فیصلہ کو تسلیم کرے اور اس کے مطابق قادیانیوں کو ملک میں مسلمانوں کے ساتھ شامل رکھنے کی بجائے غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ شمار کرے۔ یہ استفتاء نہیں تھا بلکہ قادیانیوں کے معاشرتی اسٹیٹس کو مسلمانوں سے الگ کرنے کا دستوری بل تھا اور پارلیمنٹ نے یہی فیصلہ کیا تھا۔ جبکہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ تو اس سے قبل ہو چکا تھا کہ
1- پوری ملت اسلامیہ نے اجماعی طور پر یہ فیصلہ کیا تھا،
2- ملک کے تمام مکاتب فکر متفقہ طور پر فیصلہ صادر کر چکے تھے،
3- پوری قوم اس فیصلہ پر پہلے سے متفق تھی جس کی تائید عالمی سطح پر امت مسلمہ کر چکی تھی۔
اس لیے پارلیمنٹ نے 1974ء میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا فتویٰ جاری نہیں کیا تھا بلکہ پہلے سے موجود متفقہ فیصلے کو دستور کا حصہ بنایا تھا اور اس کے لیے قادیانیوں کے دونوں گروہوں کے سربراہوں کو پارلیمنٹ کے فلور پر اپنا موقف اور پوزیشن واضح کرنے کا مسلسل کئی روز تک موقع بھی دیا گیا تھا تاکہ کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ یہ شرعی فتویٰ نہیں تھا بلکہ شرعی فتویٰ کی حمایت میں دستوری اور جمہوری فیصلہ تھا۔
دوسرا سوال آج کل یہ دہرایا جا رہا ہے کہ کیا یہ اسلامی ریاست کے فرائض یا اختیارات میں شامل ہے کہ وہ کسی فرد یا گروہ کو غیر مسلم قرار دے؟ میں اس کے جواب میں گزشتہ ایک مضمون میں عرض کر چکا ہوں کہ اگر اسلامی ریاست سے وہ ریاست و حکومت مراد ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی تھی اور حضرت ابوبکر صدیقؓ ان کے جانشین بنے تھے تو پھر ریاست کو ایسا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس لیے کہ حضرت صدیق اکبرؓ نے خلافت سنبھالنے کے بعد پہلا کام یہی کیا تھا کہ مسیلمہ کذاب، طلیحہ اسدی، اور سجاح کو ان کے ہزاروں پیروکاروں سمیت اسلامی معاشرہ کا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا جو نبوت کے دعوے دار تھے اور انہوں نے نبوت اور وحی کے ٹائٹل کے ساتھ اپنا تشخص مسلمانوں سے الگ کر لیا تھا۔ اس لیے ایک ’’اسلامی ریاست‘‘ کا بنیادی فریضہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں میں مسلمان اور غیر مسلم کا فرق قائم کرے اور اس کے مطابق سب کے ساتھ معاملات روا رکھے۔
تیسرا سوال عام طور پر یہ سامنے آرہا ہے کہ کیا غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بعد قادیانیوں کے شہری اور سیاسی حقوق بھی ختم ہو چکے ہیں یا ان کے کسی قسم کے حقوق اس ملک میں ابھی باقی ہیں؟ مختلف سطحوں پر یہ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ قادیانیوں کو پاکستان میں شہری اور سیاسی حقوق کیوں نہیں دیے جا رہے اور ان کے خلاف مقدمات اور پابندیوں کا سلسلہ کیوں جاری ہے؟
اس کا جواب قدرے تفصیل کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں اس لیے کہ اس بات کو سب سے زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔ ہمیں پاکستان میں آباد غیر مسلم اقلیتوں میں سے کسی کے شہری اور سیاسی حقوق سے کبھی انکار نہیں رہا۔ ملک میں آباد ہندو، سکھ، مسیحی، اور دیگر غیر مسلم اقلیتیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، اسمبلیوں کے ممبر بھی بنتے ہیں، کاروبار و تجارت بھی کرتے ہیں، جلسے و جلوس بھی کرتے ہیں، اور مذہبی تہواروں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ قانون کے دائرے میں یہ سارے کام ہوتے ہیں کبھی کسی نے انکار نہیں کیا اور نہ ہم نے کبھی ان کے خلاف کبھی کوئی مہم چلائی ہے۔ 1974ء کے فیصلے کے بعد دیگر اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کو بھی ملک میں ان کی آبادی کے تناسب سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں سیٹیں دی گئی تھیں حتیٰ کہ قومی اسمبلی میں بشیر طاہر نامی قادیانی ایم این اے بھی منتخب ہوئے تھے مگر خود قادیانیوں نے ہی دستوری فیصلہ کو مستر کر کے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کر دیا تھا جو آج تک جاری ہے کہ وہ ووٹ درج نہیں کراتے اور انتخابات میں حصہ نہیں لیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ملک کے انتخابی عمل میں شریک نہیں ہوں گے۔
چنانچہ اگر قادیانیوں کو پاکستان میں سیاسی حقوق حاصل نہیں ہیں تو اس کی ذمہ داری حکومت و ریاست پر نہیں بلکہ خود ان پر ہے اور اس کی وجہ ان کا وہ بائیکاٹ ہے جو وہ مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ آج بائیکاٹ ختم کریں، ووٹ درج کرائیں، اور ان کی آبادی کے تناسب سے ان کا جو حق بنتا ہے وہ حاصل کریں۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ قادیانی گروہ دستوری فیصلے سے انحراف اور انتخابی عمل کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے کر دستور کے مطابق اپنے سیاسی حقوق کی بات کرے تو اس کے حق میں سب سے پہلے آواز اٹھانے والا شخص میں ہوں گا۔
سوال یہ ہے کہ شہری اور سیاسی حقوق طے کرنے کا معیار کیا ہوتا ہے؟ کیا جن باتوں کو کوئی گروہ اپنے حقوق کی فہرست میں شامل کرلے وہ جوں کے توں حقوق سمجھ لیے جائیں گے؟ یا حقوق کے تعین اور ان کی ادائیگی کا طریق کار طے کرنے کے لیے کوئی اتھارٹی بھی ہوتی ہے؟دنیا کے کسی بھی ملک میں اس نوعیت کے فیصلے دستور کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور کسی ملک کا دستور ہی اس کے شہریوں کے درمیان وہ ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ ہوتا ہے جس کے حوالہ سے باہمی حقوق کا تعین کیا جاتا ہے۔ مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ قادیانی گروہ دستور کو تسلیم کرنے کے لیے تو تیار نہیں ہے مگر حقوق حاصل نہ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹے جا رہا ہے بلکہ پوری دنیا میں دستور پاکستان کے خلاف مورچہ زن ہو کر ریاست و حکومت کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہے۔ گویا حقوق کے تعین اور ان کی ادائیگی کا طریق کار طے کرنے کے لیے وہ اپنے علاوہ کسی کو اتھارٹی نہیں مانتے۔ اس فضا میں حقوق کا تعین اور ان کی ادائیگی کیسے ممکن ہے؟
میں اس موقع پر ایک نازک اور حساس سی بات کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک طرف تو ملک میں دستوری بالادستی کو تسلیم نہ کرنے اور حکومت رٹ کو چیلنج کرنے والے گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہے جس پر پوری قوم متفق ہے اور ہم بھی اس کی حمایت کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان کے دستور کو تسلیم کرنے سے انکار اور پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلہ کے خلاف پوری دنیا میں قادیانی پراپیگنڈا جاری ہے جس پر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت سے یہ گزارش کروں گا کہ دستور و پارلیمنٹ سے اس انحراف کا نوٹس لینا ضروری ہے کیونکہ یہ بھی ’’دستور کی بالادستی‘‘ کے ناگزیر تقاضے کی حیثیت رکھتا ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۰ ستمبر ۲۰۱۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط 1 1
3 قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟ 2 1
4 مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت 3 1
5 گلگت و ملحقہ علاقوں کی مجوزہ صوبائی حیثیت ۔ صدر پاکستان کے نام عریضہ 4 1
6 لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام 5 1
7 ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں 6 1
8 دستور پاکستان کا حلف اور قادیانی عہدیدار 7 1
9 قبائلی علاقہ جات ۔ نفاذ شریعت کی تجربہ گاہ؟ 8 1
10 ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق 9 1
11 حکمران کی ضرورت اور عوام کی درگت 10 1
12 جرائم شکنی ۔ ہمارا روایتی نظام اور اسلام کا مزاج 11 1
13 وکالت کا مروجہ سسٹم اور اسلامی نظام 12 1
14 سودی نظام کا متبادل 13 1
15 اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے مواقع اور ہمارا قومی مزاج 14 1
16 سودی نظام کا خاتمہ ۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ 15 1
17 عالم اسلام یا پاکستان میں ایک روز عید کے امکانات 16 1
18 رؤیتِ ہلال کیوں، سائنسی حسابات کیوں نہیں؟ 16 1
19 کیا عالم اسلام میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
20 کیا پاکستان میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
21 پاکستان کی سطح پر مرکزیت کی ضرورت 16 1
22 افغان مہاجرین کا مسئلہ 17 1
23 مسئلہ کشمیر ۔ سردار محمد عبد القیوم خان کے خیالات 18 1
24 کارگل کا مشن 18 1
25 خودمختار کشمیر کی تجویز 18 1
26 مسئلہ کشمیر اور سازشیں 18 1
27 جہاد کشمیر اور مجاہدین 18 1
28 چند اہم قومی مسائل اور وزیر داخلہ کی پیش کردہ سفارشات 19 1
30 سرکاری انتظامیہ کا احتساب 19 1
31 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 19 1
32 کسی کو کافر کہنے پر پابندی 19 1
33 مذہبی جلوسوں پر مقررہ اوقات اور روٹس کی پابندی 19 1
34 بسنت کا تہوار اور حکومت پنجاب 20 1
35 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر مشرف کا سیرۃ نبویؐ سے استدلال 21 1
36 سود کی حیثیت رسول اللہؐ کی نظر میں 22 1
37 شخصی اور تجارتی سود 23 1
38 پاکستان میں سودی نظام ۔ تین پہلوؤں سے 24 1
39 (۱) آسمانی مذاہب میں سود کی حرمت 24 1
40 (۲) شخصی و تجارتی سود کا معاملہ 24 1
41 (۳) قیامِ پاکستان کا مقصد اور بانیٔ پاکستان کے ارشادات 24 1
42 سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل 25 1
43 جاہلانہ رسم و رواج اور پیچیدہ نو آبادیاتی نظام 26 1
44 اسلام اور آزادی کا سفر 27 1
45 کال گرلز کا کلچر ! 28 1
46 پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات 29 1
47 قومی نصاب سازی کا معیار اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی چارج شیٹ 30 1
48 ’’میثاق جمہوریت‘‘ 31 1
49 منکرات وفواحش کا فروغ 32 1
50 پاکستانی حکمرانوں اور دانش وروں کے لیے لمحہ فکریہ 33 1
51 مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ 34 1
52 نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت 35 1
53 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام 36 1
54 نظریۂ پاکستان کیا ہے؟ 37 1
55 عربی زبان، ہماری قومی ضرورت 38 1
56 لمحہ فکریہ: 38 55
57 اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ 39 1
58 پاکستان کو ’’سنی ریاست‘‘ قرار دینے کا مطالبہ 40 1
59 مطالبہ نمبر 1: متعلقہ نصاب دینیات 40 58
60 مطالبہ نمبر 2 : متعلقہ ماتمی جلوس شیعہ 40 58
61 مطالبہ نمبر 3 40 58
62 مطالبہ نمبر 4: متعلقہ نشریات ریڈیو و ٹیلی ویژن 40 58
63 مطالبہ نمبر 5 : متعلقہ مسئلہ ختم نبوت 40 58
64 وہی شکستہ سے جام اب بھی! 41 1
65 نیب کا کردار ۔ ایک لمحۂ فکریہ 42 1
66 مسئلہ قومی زبان اردو کا 43 1
67 قیام پاکستان کا بنیادی مقصد 44 1
68 کیا اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم نہیں؟ 45 1
69 اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا حکم 46 1
70 اسلام قبول کرنے والوں کے مسائل 47 1
71 اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کار کی ضرورت 48 1
73 پاکستان میں نفاذ اردو، ہندوستان میں فروغ اردو 49 1
74 نظام مصطفٰیؐ، ایک قومی ضرورت 50 1
75 سودی نظام کا خاتمہ، غیر روایتی اقدامات کی ضرورت 51 1
76 نمازوں کے یکساں اوقات اور رؤیت ہلال کے مسئلے 52 1
77 قرآن کریم کی تعلیم لازم کرنے کا مستحسن حکومتی فیصلہ 53 1
78 ہمارے عدالتی نظام کا ماحول 54 1
79 دستور پاکستان کی بالادستی اور قادیانی ڈھنڈورا 55 1
80 قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب 56 1
81 وطنِ عزیز کے کلیدی مناصب اور مذہبی طبقات کے خدشات 57 1
82 مسئلہ کشمیر اور نوآبادیاتی نظام کی جکڑبندی 58 1
83 سودی نظام اور مذہبی طبقات کی بے بسی 59 1
84 عربی زبان کی تعلیم اور ہمارے قومی ادارے 60 1
85 مولانا زرنبی خان شہیدؒ اور شیخ عبد الستار قادری مرحوم 61 1
86 مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال 62 1
88 مسئلہ رؤیت ہلال پر دو تجاویز 63 1
Flag Counter